ملٹری کورٹس کیس،اٹارنی جنرل کی طرف سے کرائی گئی یقین دہانیاں برقرار رہیں گی،ٹرائل نہیں چلایا جائے گا،چیف جسٹس

47 / 100

فائل:فوٹو
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کیس سننے والے بنچ میں شامل کچھ ججز چھٹیوں پر چلے گئے ،، جس کے سبب سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے نو مئی بہت سنگین واقعہ ہے.

چیف جسٹس نے کہا میانوالی ایئربیس کی حفاظتی دیوار گرائی گئی، وہاں معراج طیارے کھڑے تھے ،ملک اس وقت نازک دور سے گذر رہا ہے،اٹارنی جنرل کی طرف سے کرائی گئی یقین دہانیاں برقرار رہیں گی،ٹرائل نہیں چلایا جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستا ن کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کا آغاز کیا تو ایڈووکیٹ اعتزاز احسن نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ بل کیخلاف ازخود نوٹس لینے کی استدعا کی۔چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا بل ابھی ایک ایوان میں زیر بحث ہے،دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا کیا فوجی عدالتیں آئینی عدالتوں کی تعریف میں آتی ہیں۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کورٹ مارشل آئینی عدالتوں کی تعریف میں نہیں آتیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمار کس دیئے بنیادی انسانی حقوق مقننہ کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا سکتے،آئین پاکستان نے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دے رکھا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا اگر ملٹری کورٹس کورٹ آف لاء نہیں تو پھر یہ بنیادی حقوق کی نفی کے برابر ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا عام شہریوں کا کسی جرم میں آرمڈ فورسز سے تعلق ہو تو ملٹری کورٹ ٹرائل کر سکتی ہے،اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں فوجی تنصیبات پر حملوں کا زکر ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا ہم یقین دہانی کرواچکے ہیں فوجی عدالت کے فیصلے میں مکمل وجوہات دی جائیں گی۔دوران سماعت ایڈووکیٹ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نے عدالت سے چھٹیوں پر جانے سے قبل کیس کا فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میں ذاتی طور پر حاضر ہوں، روز رات 9بجے تک بیٹھتا ہوں، اس بنچ کے ممبران کا بھی حق ہے وہ اپنا وقت لیں، ایک ممبر کو محرم کی چھٹیوں سے بھی واپس بلالیا گیا ہے، ملک اس وقت نازک دور سے گذر رہا ہے ،جنہوں نے اس عدالت کو فعال بنانے میں مدد کی ہے ان کیلئے دل میں احترام ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا میں کبھی نہیں چاہوں گا اس ملک کی فوج اپنے شہریوں پر بندوق اٹھائے،فوج کا کام شہریوں کی حفاظت کرنا ہے ،نومئی کے واقعات انتہائی سنگین ہیں ، میانوالی ایئربیس گرائی گئی، وہاں معراج طیارے کھڑے تھے، افواج پاکستان کو غیر آئینی اقدام سے گریز کرنے کاپابند کریں گے ،میرے ایک ساتھی جج نے ایک اہم زمہ داری نبھانی ہے میں وہ یہاں بتانا نہیں چاہتا، کچھ ججز کو صحت کے سنگین ایشو ہوسکتے ہیں، کچھ ججز کو چھٹیوں کی ضرورت ہے۔

ایڈووکیٹ اعتزاز احسن نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہم اپیل دینے کی یقین دہانی کو تسلیم نہیں کرتے ،محض ایک سو دو افراد کو اپیل کا حق دینا من پسند افراد کیلئے قانون سازی کرنے کے مترادف ہوگی ،فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، انتخابات میں تاخیر کی باتیں ہو رہی ہیں یہ سب کچھ سپریم کورٹ میں آئے گا۔

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے پوچھا آپ کس سے ہدایات لیکر سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروارہے ہیں۔اٹارنی جنر ل نے جواب دیا میں فوج کے اعلیٰ افسران سے ہدایات لیکر عدالت کو یقین دہانی کروائی۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا ہم نے آپ کے کہنے پر رعایتیں دیں ورنہ آرمی ایکٹ کے تحت تفصیلی فیصلہ لکھنا ضروری نہیں ،اپیل کا حق دینے کیلئے سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے ،فوج گولی چلانے کیلئے تربیت یافتہ ہوتی ہے لیکن انھوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا عدالتی بنچ آئندہ ہفتے کیلئے دستیاب نہیں ہے ،دو ہفتوں سے زائد کا وقت بھی لگ سکتا ہے ،کوئی ٹرائل نہیں ہوگا ،اٹارنی جنرل کی جانب سے کروائی گئی یقین دہانیاں برقرار رہیں گی۔

Comments are closed.