نُسخَہ کِیمِیا
محبوب الرحمان تنولی
حلقہ احباب میں میری رائے بہت معتبر تھی۔۔۔۔میرے اصولی اختلاف رائے کو توجہ ملتی اور سندکا درجہ حاصل تھا۔۔۔میری شخصیت کا احترام تھا۔۔ میرے ارد گرد کے لوگ کوئی کام کرتے مجھ سے مشاورت ضروری سمجھتے تھے۔۔۔میری تحریر اتنی پر اثر ہو گئی کہ خود مجھے حیرت ہوتی تھی۔۔۔ لوگ فرمائش کرکے لکھی تحریر مانگتے تھے۔۔۔ میراایمان ہے کہ مشورہ امانت ہے۔۔۔ اس لئے میں نے آج تک کسی کو غلط مشورہ نہیں دیا۔۔۔یہ اصول بھی پیش نظر رکھا کہ بغیر مانگے مشورہ نہیں دیناچایئے ۔۔۔ وہ اس لئے کہ بن مانگے کے مفت مشورے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
میرے اپنے لوگ ہوں یا میرے شعبہ سے وابستہ کولیگز۔۔ دوست (دوست رسماً لکھ رہا ہوں اس کی تعریف وسیع ہے) میرے لئے مثبت سوچ رکھتے تھے۔۔میں کبھی مالدار اسامی نہیں رہا۔۔۔ ہاں اللہ پاک کے خاص کرم سے ایک معتبر شعبہ سے وابستہ رہا جس میں رہ کرزندگی کا بیشتر حصہ تمام ہوا۔۔ میں بہت کم سوال کرنے والا آدمی ہوں پھر بھی۔۔۔کبھی کوئی ضرورت پڑ جائے۔۔۔ پوری ہو جاتی تھی۔۔۔ کسی دفتر میں کام ہو تو نکل آتا تھا۔۔۔اسپتال، تھانہ کچہری ، پبلک سروس امور ہر جگہ بلواسطہ یا بلا واسطہ رسائی تھی اور کسی حد تک شنید بھی۔
کسی برخوردار کو بتا دوں کہ یہ کام نہیں کرنا ۔۔ مجال ہے وہ کوئی توجیح پیش کرے۔۔اسے پتہ ہوتا تھا کہ بغیر کسی وجہ کے میں رکاوٹ بننے والا نہیں ہوں۔۔۔میرے حلقہ احباب کی کوئی بیٹھک میرے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی۔۔۔میرا فون چوبیس گھنٹے بجتا تھا۔۔ اسی لئے مجھے رات سوتے وقت فون بند کرنا پڑتا تھا ۔۔۔جتنی عزت مجھے ملتی میں اس سے کہیں زیادہ اپنے سے سینئر لوگوں کو دیتا اور دیتا ہوں۔۔خاندان کے بڑوں کااحترام کبھی ضرورتوں اور مصلحتوں کے تابع نہیں ہونے دیا۔
مجھے پتہ تھا میں کچھ بھی نہیں ہوں اللہ پاک نے بھرم رکھا ہوا ہے۔۔ یہ تو سچ ہے اللہ کریم کبھی اپنے بندوں کو مشکل میں ڈال کر بھی آزماتاہے۔۔شاید میں بھی ایک مشکل میں آگیا۔۔ اس مشکل کی وجہ کیا تھی یہ میرا اللہ کریم جانتا ہے۔۔ بندہ اندازے ہی لگا سکتاہے۔۔ لیکن میں پھر بھی اس کو امتحان نہیں سمجھتا۔۔۔ کیوں کہ صرف ایک روز گار ہی چھناتھا۔۔ میری صحت برقرار ۔۔میرا گھر اور گھر والے سلامت اور بظاہر میری زندگی میں کوئی تبدیلی بھی نہیں آئی ۔۔ سوائے معیار زندگی متاثر ہونے کے۔
رفتہ رفتہ ایک تبدیلی نے مجھے بہت جھنجھوڑا۔۔۔مجھ سے وابستہ لوگ جو میری بات کو بہت اہمیت دیتے تھے۔۔میرے غیر فعال اوربے اثر ہونے سے۔۔مجھ سے دور ہونے لگے ۔۔ میری رائے جھٹلائی جانے لگی۔۔اچھے تعلقات بگڑتے چلے گئے۔۔بغیر لڑائی کے فاصلے بڑھ گئے۔۔۔ جو میرے بہت قریب تھے وہ سرک کر دوسری طرف ۔۔۔میری بات اور تنبیہ کو حکم کا درجہ دینے والے میری رائے کو گالی سمجھنے لگ گئے۔۔وقت لے کر ملنے والوں نے بیچ کی مسافتیں بڑھا لیں۔۔
یہ سب اس احتیاط کے باوجود بھی ہوا کہ میں مشکل وقت میں دوستوں اور عزیز واقارب سے خود فاصلے پہ ہو جاتا ہوں کہ کسی کو امتحان میں نہ ڈالا جائے ۔۔لیکن انسان سماجی جانور بھی تو ہے ۔۔ رہنا تو اسی معاشرے میں ہوتاہے ۔۔ جنگلوں کا رخ تو کیا نہیں جاسکتا۔۔انسان کتنا کمزور اور اس کا دوسروں کو پرکھنے کا پیمانہ کتناعجیب ہوتاہے اس بات کا زرا قریب سے مشاہدہ ہوا۔۔ دنیا بے وقعت چیز ہے۔۔ مجھے مایوسی نہیں ہوئی بلکہ مشکل وقت نے مجھے اللہ کریم کے قریب ہونے کا موقع دیا۔ میری مثبت سوچ میں وسعت پیدا ہوئی۔
اللہ کریم جہاں انسان کو مصائب وآلام سے گزارتا ہے وہاں کئی اسباب بھی پیدا کر دیتاہے۔۔۔ جب روزگار چھنا ۔۔ کاروبار کی کوشش رائیگاں گئی۔۔ہر راستے میں ریڈ سگنل ملا ۔۔ تو پھر اللہ کریم نے یہ بات بھی مجھ پہ عیاں کردی کہ کبھی کبھی وہ ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتاہے جہاں ہماری سوچ بھی نہیں ہوتی۔۔۔بن مانگے دیتاہے۔۔وہ لوگوں کے دلوں میں احساس پیدا کرکے وسیلہ بنا دیتاہے۔۔۔میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔۔۔مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبصہ میں میری جان ہے مجھے مشکل حالات سے مایوسی نہیں ہوئی۔
آج بھی میں پر امید ہوں اگر زندگی نے وفا کی تو اللہ کریم مجھے وہ مقام ضرور دے گا جو شاید میری کوتاہیوں کی وجہ سے حاصل نہیں ہوسکا۔۔ بس انسان کو اپنی مثبت سوچ اور ثابت قدمی کو برقرار رکھنے کی سعی کرنی چایئے۔۔کسی سے ذاتی حثیت میں کوئی گلہ نہیں ہے۔۔ رویوں کا ذکر اس لئے کیا کہ پڑھنے والوں کو سمجھ آ جائے کہ کبھی ایسے حالات پیدا ہوں تو اسے اللہ کی رضا یا رسم زمانہ سمجھ کر ہضم کر لیں۔۔ جب آپ کسی اچھے مقام پر یا مالی حثیت بہتر کرلیں گے تعلقات بحال ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی کہ ہمیں جس رویہ ، اہمیت ، احترام کا فرق پڑا ہو۔۔ اسے پیش نظر رکھ کر اپنی اصلاح کریں اور آئندہ اپنے ارد گرد والوں سے بے لوث تعلق رکھیں۔۔۔ یہ حقیقت ہے کوئی کنگلا شخص بھی اچھی بات یا رائے رکھ سکتاہے ۔۔۔ اور پیسے اور حثیت والا بھی غلط ہو سکتاہے۔۔ انسان یا اس کی بات کو اہمیت دینے کا معیار نہیں بدلنا چایئے۔۔وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔۔ یہ وقت اور تجربہ سکھاتا ہی نہیں یاد کروا دیتاہے۔۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے۔۔ جس کے ساتھ نیکی کرو اس نیکی کو چھپاو ۔ اور آپ کے ساتھ جو نیکی کرے اسے سب کو بتاو ۔۔
انسان ہوں لغزش ہوئی ہوگی مگر میں نے یہ اصول ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی کوشش کی۔
اللہ کریم نے شروع سے مجھے یہ صفت عطا ء کی ہے میں جس امتحان سے گزرتا ہوں اس کے منفی پہلو نظر انداز کرکے مثبت تلاش کرتاہوں تاکہ آئندہ کی اصلاح ہو سکے۔۔سب سے بڑی بات ۔۔ ۔ اللہ کے بندوں کو اللہ کیلئے معاف کرناسیکھیں۔۔ پھر اللہ سے امید رکھیں کہ اللہ آپ کو معاف کر دے گا۔۔جب اللہ کی رضا کیلئے معاف کرتے ہیں تو پھرہم اللہ کو گواہ بناتے ہیں۔۔۔ ہمارے معاشرے میں کچھ کردار معاف کرتے بھی یہ نیت برقرار کھتے ہیں کہ چلیں مٹی پاو۔۔ہم نے کون سا آگے ساتھ چلناہے۔
ایسا سوچنا بھی اپنے آپ سے دھوکہ ہے۔۔ کیونکہ جب یہ اصول طے ہے کہ عملوں کا دراو مدار نیتوں پر منحصر ہے تو پھر نیت بھی مثبت کیوں نہ رکھیں؟ہمیں رشتہ داروں، دوستوں اور زندگی میں ساتھ چلنے والوں کو زندگی میں عزت دینا سیکھنا چایئے۔ مرنے کے بعد کسی کی اچھائی کااعتراف شاید اللہ کے ہاں گواہی قبول ہوجائے تو اچھا ہے مگر یہ گواہی اور حسن سلوک تب زیادہ افضل ہے جب ہم جیتے جی یہ صفت خود میں پیدا کریں۔ زندگی میں ان رشتوں، تعلقات کو اہمیت اور عزت دیں۔۔ اللہ کریم کو بااخلاق لوگ پسند ہیں۔۔دل سے دوسروں کو عزت واحترام دینے والے اور خیال رکھنے والے۔
طیش ،۔میں۔غرور ،۔تکبر۔خود پرستی اور اپنی ذات میں انا کی سلطنت قائم کرلینا ایسی بیماریاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بھی پسند نہیں ہیں ۔۔دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی صرف منہ پہ عزت کی جاتی ہے۔ ڈر سے ۔ خوشامد سے ۔ ضرورت سے یا پھر ‘شر’سے بچنے کیلئے۔۔یہ انسانی فطرت ہے ہم ان لوگوں کے قریب یا ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں جو ہمیں عزت دیتے ہیں۔۔خیال رکھتے ہیں۔۔مگر دولت اور منصب کی زعم میں مبتلا ہوجائیں تو پھر صر ف منہ پہ عالی جاہ! پیٹھ پیچھے خالی جاہ۔ہمیں یہ ذہن بنا لینا چایئے کہ کسی کو عزت دینے سے کبھی اپنی عزت کم نہیں ہوتی۔
بدقسمتی سے ہم نے اچھائی برائی کے اپنے معیار بنا لئے ہیں۔کسی کو اخلاقی یا مذہبی پہلو کے پیش نظر نصیحت دور کی بات ہے یاد دہانی بھی کرادیں کہ اسلام کا یہ دائرہ کار ہے۔۔ بعض ناسمجھ جواب دیتے ہیں ۔۔ کس زمانے کی بات کررہے ہیں۔ ساری دنیا یہ کررہی ہے۔اسلام کا تصور حیات تو”امربالمعروف و نہی عن المنکر” ہے مگر ہماری برداشت ، حوصلہ، سننے سمجھنے کے معیار مختلف ہو گئے ہیں۔۔یہ حق ہم علماء کو دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں۔ عام آدمی تو برائی سے منع کرے تو ‘ناصح ‘ کی اخلاقی اہلیت کا پوسٹ مارٹم شروع ہوجاتاہے ۔
سیانے کہا کرتے ہیں کہ عقل داڑھ تاخیر سے نکلتی ہے۔انسان کی ذہنی پختگی بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ زندگی تجربات سے گزرتی ہے تو مختلف اشکال اختیار کرلیتی ہے۔یہ ہم ہی ہیں جو منفی نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کسی کے ساتھ اچھائی نہیں کرنی چایئے۔ انجام برا ہوتا ہے۔نیکی کر دریا میں ڈال۔ حالانکہ کہ نیکی بندہ اللہ کی خوشنودی کیلئے کرتا ہے۔۔ اور جوکام اللہ کو خوش کرنے کا ہو صلہ بھی وہی دیتاہے۔ جب ہم نیکی کا بدلہ ملنے کی نیت سے نیکی کرتے ہیں تو پھر وہ نیکی نہیں ہوتی ۔۔ بندوں کا آپس میں کارو باری سودا ہوتاہے۔ جواب اچھائی ملے یا برائی۔ عمل رائیگاں۔
اللہ کریم کا یہ بھی خاص کرم ہے کہ جب زندگی کا بیشتر حصہ انا پرستی۔اچھائی برائی میں تمیز کئے بغیر گزرا ۔ لوگوں کو ان کے رویوں کے مطابق پرکھا ۔ دنیاوی معاملات کو دنیاوی مروجہ اصولوں کے ترازو میں تولہ تو ایک اسٹیج یہ بھی آگیا ۔اپنے فیصلوں پر ندامت ہوئی۔۔ جب اللہ نے مثبت سوچ پر چلنے کی توفیق دی تو پھر بہت سے معاملات میں صرف اللہ کی مرضی کو پیش نظر رکھا اور کامیابی مقدر بنی۔عبادت صرف سجدہ کرنے تک محدود نہیں ہر وہ اچھا عمل جو اللہ کی خوشنودی کیلئے کیا جائے عبادت ہے ۔یہ وصف ہر انسان میں موجود ہوتا ہے بس تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کبھی ٹھوکر کھا کر سمجھ آ جاتی ہے اور بعض اوقات دوسروں کو دیکھ کر۔
اللہ کریم نے ابتدامیں بیان کردہ تمام تر صورتحال سے نکال لیا۔۔زندگی کی کشتی ہچکولے کھاتی بھنور سے باہر نکل آئی ۔نہ ہواوں سے گلہ ہے نہ ملاحوں سے ۔ہا ں اللہ پاک سے اظہار تشکر ضرور ہے کہ اس نے مشکل وقت گزارنے اور امید قائم رکھنے کا حوصلہ دیا۔۔بات ختم کرنے سے پہلے ایک ”نُسخَہ کِیمِیا ”شیئر کرنا چاہتا ہوں اپنے پڑھنے والوں کیلئے۔۔اپنے گھر، رشتہ داروں، حلقہ احباب اور کولیگز سے گلے شکوے کرنا ختم کر دیں۔۔ زندگی آسان ہو جائے گی۔۔کینہ ، حسد اور بغض پال کر رکھیں گے تو خود اس میں جلتے رہیں گے کسی دوسرے کو فرق نہیں پڑے گا۔
محبو ب الرحمان تنولی کا گزشتہ کالم
Comments are closed.