زخم مندمل نہیں ہوتے

شہریار خان
   
نوائے وقت اخبار میں چھ ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی، مستقل ملازمین کو قبل از وقت ریٹائر کرنے اور ڈیلی ویجز پر دوبارہ ملازمت دینے کے خلاف مظاہرہ جاری تھا۔ پرویز شوکت صاحب بولے کہ جن کے لیے ہم مظاہرہ کر رہے ہیں وہ یہاں موجود نہیں ہیں۔

اچانک مجمع میں سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص سامنے آیا اور بولا میں یہاں موجود ہوں، میں وہ ہوں جس نے اپنی زندگی اس اخبار کو دے دی، جوانی سے بڑھاپے میں پہنچ گیا ہوں، میںوہ ہوں جس کو اب محلے والے بھی دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں کہ کہیں قرض نہ مانگ لوں۔

میں وہ ہوں جس کے بچے سکول کالج تو کیا اب گھر سے بھی باہر نہیں جا سکتے، ان کی کتابیں خرید سکتا ہوں، نہ فیس ادا کر سکتا ہوں۔۔ میں وہ ہوں جسے دفتر میں گھسے رہنے کے باعث اب رشتے دار بھی نہیں ملتے اور جس دفتر کی خاطر اپنوں سے دور ہوا وہ دفتر بھی اب مجھے رکھنا نہیں چاہتا۔

دکاندار جسے دیکھ کر دور سے ہی ہاتھ جوڑ لیں۔۔ میرے گھر میں فاقے پڑ رہے ہیں۔۔ اتنا کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔۔وہ کیا رویا مانو میرا دل کٹ گیا۔۔ آنکھوں سے کب آنسو پھسل کر دامن پہ بکھر گئے پتا ہی نہیں چلا۔۔ جلدی سے آستین سے آنکھیں اور منہ صاف کیا۔۔۔

میں نے مڑ کر دیکھا یہ وہی دفتر ہے جہاں میرے ابو جی بیٹھا کرتے تھے۔۔ بچپن میں بینک روڈ راولپنڈی میں نوائے وقت کے دفتر جایا کرتے اور پھر جب غالباً نوے کی دہائی میں نوائے وقت اسلام آباد یہاں منتقل ہوا تو یہاں آنا ہوا کرتا۔

مجھے اس دفتر کے گھٹن زدہ ماحول سے ہمیشہ وحشت ہوا کرتی۔ یہاں تنخواہ کم اور مالکان کے نخرے زیادہ تھے۔ میرے والد مرحوم انوار فیروز صاحب ہمیشہ کہا کرتے کہ مرحوم حمید نظامی کی زندگی تک اخبار واقعی ایک مشن تھا، ان کے انتقال کے بعد مجید نظامی نے تمام انتظام سنبھال لیا۔

ان کے آنے کے بعد مجید نظامی صاحب نے اخبار بہتر انداز میں چلایا لیکن ملازمین کے حقوق کبھی ادا نہ کر پائے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ چاہے اشتہار کتنے لمبے عرصہ کے لیے کیوں نہ بند ہوں، انہوں نے کبھی تنخواہوں میں تاخیر نہیں ہونے دی۔

اس اچھائی کے باوجود ابو جی کہا کرتے کہ جب ڈبل ایم اے پاس لوگوں کو چھ چھ ہزار روپے تنخواہ پر کام کرتے دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے۔۔ لیکن اگر آج انوار فیروز صاحب زندہ ہوتے تو حیران ہو جاتے کہ مجید نظامی کی لے پالک بیٹی نے اخبار اور چینل کا جو حال کیا ہے وہ حال تو کوئی قصائی بکرے کا بھی نہیں کرتا۔

اس رمیزہ نظامی نامی خاتون نے ورکر کے جسم پر چمڑی بھی نہیں رہنے دی اور روح پر بھی وہ گھاﺅ لگائے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔۔ رمیزہ نظامی یہاں سے وقت چینل بند کر چکی اور موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس نے مختلف جائیدادیں فروخت کر کے تقریباً بائیس ارب روپے بیرون ملک منتقل کر دیئے ہیں۔

نوائے وقت اور نیشن میں طویل مدت سے کام کرنے والے جرنلسٹ اور میڈیا ورکرز کو مستقل ملازمت سے فارغ کر کے ان کو ڈیلی دیجز کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں لیکن مجال ہے کہ کہیں کوئی شور مچا ہو۔۔۔ مجال ہے کہ حکومت نام کی کسی شے کا وجود دکھائی دے۔۔

مجال ہے کہ کسی صحافتی تنظیم کی صحت پر کوئی اثر پڑا ہو۔۔ اسی دفتر میں ایک تنظیم کے صدر صاحب بھی طویل مدت سے کام کر رہے ہیں، وہ بھی ریٹائر ہو گئے ہیں اور ڈیلی ویجز پر کام کر رہے ہیں لیکن الحمد للہ آج بھی نظامی خاندان کی شان میں قصیدے پڑھتے ملیں گے، ماشااللہ کیا مستقل مزاج طبیعت پائی ہے۔

ان کے دائیں بائیں بیٹھے رپورٹرز، فوٹوگرافر یا سب ایڈیٹر جب تنخواہوں میں تاخیر کی شکایت کریں تو ایسے حضرات فوراً کہتے ہیں جس کو جانا ہے وہ نوکری چھوڑ کر چلا جائے لیکن اپنے ادارے کے خلاف بات کوئی نہ کرے ، کوئی پوچھے جناب مالک اور ادارہ کی عزت ہے لیکن کیا ورکر کی کوئی عزت نہیں؟۔۔

اس احتجاجی مظاہرہ میں ہمارے دوست مظہر اقبال نے ایک واقعہ بھی سنا دیا جو نوے کی دہائی کا ہے جب پی ایف یو جے کی کال پر ویج بورڈ پر عملدرآمد کے لیے آر آئی یو جے مختلف دفاتر کے سامنے کیمپ لگا رہی تھی، میں سی آر شمسی، فوزیہ شاہد اور پرویز شوکت صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ کے باعث ہر کیمپ میں شریک ہوتا۔

نوائے وقت کے باہر جس روز کیمپ لگا اس روز مجید نظامی صاحب بھی اندر موجود تھے، کسی نے جا کر مجید نظامی کو بتایا کہ انوار فیروز صاحب کا بیٹا بھی باہر کیمپ میں بیٹھا ہوا ہے، انہوں نے انوار فیروز صاحب کو بلایا اور کہا آپ کا بیٹا بھی ہمارے خلاف لگنے والے کیمپ میں بیٹھا ہوا ہے وہ بولے میں بھی ڈیوٹی ختم کر کے کیمپ میں بیٹھوں گا۔

یہی وجہ ہے میرے ابو جی انوار فیروز صاحب نے ترقی کے بجائے تنزلی پائی اور 1970 میں چیف رپورٹر بننے والے آہستہ آہستہ سب ایڈیٹر ہوئے اور پھر دفتر سے ریٹائر کر کے نکال بھی دیا گیا۔ ساری ملازمتوں میں سینئر ہونے کا فائدہ لیکن صحافت میں نقصان ہے۔ مالک کو آپ کی زیادہ تنخواہ کھٹکنے لگتی ہے۔

میرے والد ایک ہمت والے شخص تھے جنہوں نے کبھی بھی پریشانیوں سے گھبرانا نہیں سیکھا تھالیکن شاید آج وہ ہوتے تو اپنے ساتھیوں کے گھروں میں فاقہ کشی کا راج دیکھ کر وہ بھی ٹوٹ جاتے اور میری طرح کسی کونے میں کھڑے ہو کر آنسو بہا رہے ہوتے۔

اچھا ہوا وہ آج یہ وقت دیکھنے کے لیے موجود نہیں تھے ورنہ وہ جو کبھی کسی فیصلے پر پچھتائے نہیں آج ضرور پچھتاتے کہ ایک ایسے ادارے کے ساتھ کیوں وفاداری کے ساتھ کام کرتے رہے۔جہاں وفاداری، ایمانداری اور محنت کی نہیں بلکہ صرف چاپلوسی کی قدر ہے۔ آنسو تو شاید خشک ہو جاتے ہیں لیکن دل پر لگنے والے زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ کبھی مندمل نہیں ہوتے۔

Comments are closed.