”چندہ ماموں“
شمشاد مانگٹ
پاکستان میں دو کام بہت آسان ہیں اول کسی بھی سطح پر چندہ اکٹھا کرنا اور دوم کسی بھی وقت کسی کو بھی ماموں بنانا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ برسر اقتدار لوگوں سے لیکر اور غریب عوام تک یا تو ” چندہ “ اکٹھا کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور یا پھر دونوں گروپ اقوام عالم اور مقامی لوگوں کو ماموں بنانے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔
یہی کام پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں بھی کررہی ہیں ایک طرف تمام سیاسی جماعتیں پارٹی ٹکٹ دینے کے نام پر چندہ وصول کررہی ہیں اور دوسری طرف کم ” چندہ“ دینے والوں کو پارٹی ٹکٹ نہ دیئے جانے پر ماموں بھی بنایا جارہا ہے ۔ ملک کی تمام بڑی پارٹیوں نے بھاری بھرکم ” چندہ“ وصول کرکے پارٹی ٹکٹ جاری کئے ہیں اور جنہیں ٹکٹ نہیں ملا انہیں ” اکاموڈیٹ“ کا لولی پاپ دیکر بہت خوبصورتی سے ماموں بنا دیا گیا ہے ۔
ماموں بنائے جانے پر سب سے زیادہ احتجاج پی ٹی آئی کے نظریاتی لوگ کررہے ہیں اور ان کا موقف وزن بھی رکھتا ہے کہ 20سالہ جدوجہد کا نتیجہ یہ ملا ہے کہ سرمایہ داروں اور جرائم پیشہ لوگوں نے چندہ دیکر ٹکٹ لے لئے اور کارکنوں کو ماموں بننے پر مبارکباد بھی دینے کیلئے پارٹی قیادت راضی نہیں ہے ۔
اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے کارکن بھی احتجاج میں پیش پیش ہیں بلکہ زعیم قادری اور چوہدری عبدالغفور نے تو علی الاعلان ” ماموں “ بننے سے انکار کردیا ہے اور پارٹی قیادت کو للکار بھی دیا ہے کہ لاہور کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے حالانکہ ان دونوں حضرات کو یہ علم ہونا چاہیے تھا کہ مسلم لیگ (ن) کاایجنڈا یہ ہے کہ لاہور اب باپ کی جاگیر نہیں بلکہ یا تو بیٹی کی جاگیر ہوگا اور یا بیٹے کی جاگیر ہوگا مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان اسی جاگیر پر تو جھگڑا ہور ہا ہے ۔
زعیم قادری اور عبدالغفور پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ للکارنا یا تو بھول گئے یا پھر انہیں اس واردات کا علم ہی نہیں ہے کیونکہ میاں نواز شریف لاہور کی جاگیر سے دستبردار ہوکر اسے مریم نواز کے نام ” الاٹ “ کرنا چاہتے تھے جبکہ میاں شہباز شریف اپنی اہلیہ تہمینہ درانی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے یہ جاگیر حمزہ شہباز کے نام کرکے خود کو مزید شادیوں کیلئے وقف کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) میں بھی ٹکٹوں کی فروخت اور فصلی بٹیروں کو اوپر لانے کے الزامات لگ رہے ہیں ۔
2018ء کے الیکشن میں یہ ٹرینڈ زیادہ کھل کر سامنے آیا ہے کہ تمام بڑی پارٹیوں کے ایم این اے حضرات اپنے نیچے تین تین ایم پی ایز کے ٹکٹ اپنے من پسند افراد کو دلوا کر اپنی الیکشن مہم ٹھیکے پر دے رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی ، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں یہ کلچر بہت شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ ہر ایم این اے نے اپنی قیادت کو ” رام “ کرلیا ہے کہ وہ اسی صورت کامیاب ہوسکتا ہے اگر اس کے نیچے ایم پی اے اس کی مرضی کے ہونگے ۔ پورے ملک میں اس فارمولا کے تحت ٹکٹوں کی تقسیم ہوئی ہے ۔ اس فارمولا کے تحت ہر ایم این اے کی الیکشن مہم ”مفت “ میں جاری ہے کئی جگہوں پر ایم پی اے حضرات نے اپنے ایم این اے کو ہمنوا بنانے کیلئے ” نقدی “ دیکر کام نکال لیا ہے جبکہ کچھ نے الیکشن مہم کا سارا خرچہ اٹھانے کی گارنٹی دیکر یہ مسئلہ حل کرلیا ہے نظریاتی کارکنوں کی ” تدفین “ میں دو طرح کے گورکن حضرات نے پھرتی دکھائی ہے ۔
اول ایسے فصلی بٹیروں نے نظریاتی کارکنوں کے بوریا بستر گول کئے ہیں جنہوں نے پارٹی فنڈ کے نام پر بھاری چندہ دیکر پارٹی قیادت کو ماموں بنایا اور اپنا الو سیدھا کرلیا ۔ دوم فصلی بٹیروں نے نظریاتی کارکنوں کی ” اننگز“ ختم کرنے کیلئے مقامی ایم این اے کو شیشے میں اتارنے کیلئے ان کی الیکشن مہم اپنے سر لیکر پارٹی ٹکٹ کے حصول کی چوٹی سر کرلی ہے اور سالہا سال تک پارٹی کیلئے مار کھانے والے نظریاتی کارکنوں کے پاس اب سر پیٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔
چونکہ ہمارے ملک کا کلچر یہی ہے اور عمران خان نے اصولی اور نظریاتی سیاست کیلئے جو روضہ رکھا ہوا تھا وہ انہوں نے عین عصر کے وقف توڑ کر خود کو کارکنوں کی نظر میں گناہگار بھی بنالیا ہے ہمارے ہاں اس بار متحدہ مجلس عمل سمیت دیگر مذہبی جماعتیں بھی سیاست میں حصہ لے رہی ہیں اس لئے چندہ لینے اور ماموں بنانے کا گُر یہ سب سے بہتر جانتے ہیں ۔
ایک مذہبی رہنما کو جب بھی سیاسی کارکن ملنے کیلئے آتے تھے وہ اجلاس ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے اپنے ” کار خاص “ جس کا کوڈ نام انہوں نے ”چندہ “ رکھا ہوا تھا کو بلالیتے تھے اور چندہ جب اختتامی اجلاس میں حاضر ہوتا تو اس کے پاس ایک ڈبہ ہوتا جس پر لکھا ہوتا تھا ” چندہ برائے پارٹی“ اس طرح مولانا سے میٹنگ کامیاب ہوتی یا ناکام ہوتی لیکن چندہ اپنا کام دکھا ہی جاتا تھا اور ملاقاتیوں کو ماموں بھی بنا دیتا تھا شعور کی منزلیں جب تک طے نہیں ہونگی ہم چندہ بھی دیتے رہیں گے اور ماموں بھی بنتے رہیں گے ۔ جس شدت سے یہ دونوں کام ہمارے ہاں ہورہے ہیں شائد اسی لئے اب مائیں ” چندہ ماموں “ کی لوری بچوں کو سنانا بھول گئی ہیں ۔
Comments are closed.