چک چھیانوے شمالی
اسلم ڈوگر
اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں فتح حاصل کرنے کے بعد تاج برطانیہ نے براہ راست ہندوستان پر حکومت چلانا شروع کی تو یہاں اپنی سلطنت کو مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے بیوروکریسی کا برطانوی نظام لاگو کیا گیا۔
ہندوستان کی زرخیز زمینوں سے زیادہ سےزیادہ پیدوار حاصل کرنے کے لئے برطانیہ نے دنیا بھر میں پھیلی اپنی سلطنت سے حاصل ہونے والے تجربات کا استعمال شروع کیا۔ چنانچہ اٹھارہ سو اسی میں تاج برطانیہ کے ایک مایہ ناز بیوروکریٹ پوہم ینگ نے جھنگ، گوگیرہ اور ساندل بار کے جنگلات کو صاف کر کے یہاں ایک شہر بسانے کا تصور پیش کیا۔ ان کی اس تجویز کی سر جیمز براڈ وڈ لائل نے بھرپور حمائت کی اور اس طرح سلطنت برطانیہ کی طرف سے ہندوستان میں پہلا شہر بسانے کا کام شروع ہوا۔ اس کامیاب تجربے کے بعد پنجاب کے علاقوں میں جنگلات کو صاف کر کے دوسرے شہر منٹگمری، سرگودھا اور خانیوال بسائے گئے۔ ۔ڈیرہ غازی خان کو انیس سو نو کے سیلاب سے تباہی کے بعد دوبارہ بسایا گیا۔
ان شہروں کی تعمیر جدید بنیادوں پر کی گئی اور شہروں کی تعمیر میں کم از کم دو سو سال کی مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھا گیا۔ان شہر کے ساتھ ساتھ زرعی زمینوں کی آباد کاری کی گئی۔ زرعی زمیوں کی آبیاری کے لئے نہریں کھودی گئیں۔ دیہات کی جدید خطوط پر آباد کاری کی گئی اور زرعی زمیوں کو دیہات کو مربعوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان دیہات کو چک کہا گیا اور ہر چک کا نمبر رکھا گیا۔ زمیوں کو آباد کرنے کے لئے گرداسپور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور گجرات سے کسانوں کو لایا گیا اور ان کسانوں کو یہ زمینیں اس شرط پر دی گئیں کہ وہ ہر مربع اراضی پر کم از کم ایک گھوڑی پالیں گے اور کسی جنگ یا بغاوت کی صورت میں یہ گھوڑی اور ایک مرد حکومت کو مہیا کئے جائیں گے۔ اس لئے انہیں گھوڑی پال مربع بھی کہا گیا۔
جو دیہات بنائے گئے ان کی ایک جھلک چک نمبر چھیانوے شمالی ضلع سرگودھا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ چھیانوے شمالی کا گاؤں ایک مربع زمین پر بنایا گیا۔ گاؤں کا مرکزی بازار ساٹھ فٹ چوڑا اور ذیلی گلیاں چالیس فٹ چوڑی رکھی گئیں۔ہر گھر کو گاؤں میں رہائشی مکان اور جانوروں کے لئے ایک ایک کنال زمین دی گئی۔ گھروں کے پلاٹ کے ساتھ ساتھ گاؤں کے باہر ایک ایک مرلہ کا پلاٹ ہر گھر کو الاٹ کیا گیا جس میں ایک گڑھا کھود کر اس میں جانوروں کا گوبر اور گھر کا کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا تاکہ وہ کھاد بن سکے۔
تقسیم سے قبل کے چھیانوے شمالی کے رہائشیوں کے بارے میں سرکاری ریکارڈ تو دستیاب نہیں مگر یہاں ایک گردوارہ موجود تھا اور اس گاؤں کو چھیانوے شمالی کے ساتھ ساتھ اکال گڑھ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ گاؤں کے رہائشیوں کی اکثریت سکھ مذہب سے تعلق رکھتی ہو گی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق گوردوارہ کے اخراجات چلانے کے لئے ساڑھے تین ایکڑ اراضی بھی مختص کی گئی تھی جسے قیام پاکستان کے بعد مسجد کے نام منتقل کر دیا گیا اور گوردوارہ میں چار خاندانوں نے رہائش اختیار کر لی۔ان خاندانوں کو گوردوارے والے کہہ کر پکارا جاتا تھا۔
گاؤں کے چاروں کونوں پر صاف پانی کے تالاب بنائے گئے۔تاکہ یہاں سے جانور پانی پی سکیں۔ ا ان تالابوں کے لئے نہری پانی مختص کیا گیا جو انہیں ہر ہفتے ملتا تھا۔ قیام پاکستان تک یہ تالاب اپنی اصل حالت میں برقرار رہے اور یہاں صاف پانی موجود ہوتا تھا۔ستر کی دہائی میں محکمہ زراعت کے تحت ان تالابوں میں مچھلیاں بھی چھوڑی گئی تھیں۔
گاؤں سے مالیہ وصول کرنے کے لئے نمبردار مقرر کیا گیا۔ اس نمبردار کا کام سرکاری حکام کی گاؤں آمد کے وقت انہیں پروٹوکول دینا اور ان کے احکامات کی تعمیل کرانا ہوتا تھا۔نمبردار کو بارہ ایکڑ سرکاری زمین دی گئی تھی۔
گاؤں میں اعلٰی نسل کے جانوروں کی افزائش کے لئے سرکاری کور پر ایک عدد بھینسا اور ایک بیل گاؤں میں چھوڑے جاتے تھے۔ انہیں سرکاری بھینسے کہا جاتا تھا اور ان جانوروں کی ذمہ داوری نمبردار کی ہوتی تھی۔ گاؤں کا مرکزی چوک بہت وسیع تھا جس میں وسیع اجتماعات کرنے کی گنجائش تھی ۔ گاؤں میں کئی مربع اراضی سرکار کے نام ہی تھی جس کو ڈپٹی کمشنر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کا مجاز تھا اور عموما یہ ان کسانوں کو دی جاتی جو ڈپٹی کمشنر کے بہت قریب ہوتے تھے۔گاؤں میں ایک عدد پرائمری سکول تھا جس کی عمارت کچی تھی۔ سکول کے نام بھی چار ایکڑ زرعی زمین الاٹ کی گئی تھی تاکہ اس کی عمارت کے اخراجات کو پورا کیا جا سکے۔ سکول میں پودوں، پھولوں اور گھاس کی آبیاری کے لئے نہری پانی مختص کیا گیا تھا۔
آج اکال گڑھ کو آباد ہوئے تقریبا ایک سو بیس سال ہو گئے ہیں اور یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے ہائی سکول ہیں۔ پانی کے تالاب جنہیں بعد میں چھپڑ کہا جانے لگا تھا کو بھر کر لوگوں نے ان پر اپنے گھر بنا لئے ہیں۔ ان تالابوں کا پانی جس جس کا بس چلا وہ اپنے کھیتوں میں لگانے لگا ہے۔ سکول کی زمین پر اور پانی پر ایک خاندان نے قبضہ کر لیا ہے۔گاؤں کے مرکزی چوک پر سات آٹھ لوگوں نے مکانات تعمیر کر کے قبضہ کر لیا ہے۔
گاؤں کے مرکزی باراروں میں لوگوں نے تجاوزات کر کے انہیں اس قدر تنگ کر دیا ہے کہ وہاں بمشکل ایک گاڑی گزر سکتی ہے۔ذیلی گلیاں جو چلیس چالیس فٹ تھیں وہاں اب موٹرسائیکل پر گزرنا دشوار ہے۔ گاؤں کے باہر کوڑا پھینکنے کے لئے جو پلاٹ تھے وہاں مکانات تعمیر ہو چکے ہیں اور گاؤں کا کوڑا خاک بن کر اڑتا ہے اور ہر رہائشی کے سر میں پڑتا ہے۔ گاؤں کی ایک مسجد ہوا کرتی تھی مگر اب تین مساجد بن چکی ہیں اور ان کے درمیان زمین اور دوسرے اثاثوں کی تقسیم کا جھگڑا ہے۔گاؤں کی تین میں سے دو مساجد کے اماموں کو نکاح خوان کے طور پر رجسٹر جاری کئے گئے ہیں۔ گاؤں میں بارات آنے سے پہلے شادی والے گھر میں یہ نکاح خوان پہنچ جاتے ہیں اور ان میں ہر وقت جھگڑا رہتا ہے کہ وہ نکاح کو رجسٹر کریں گے۔ گاؤں کے سرکاری بھینسے فروخت کر کے پیسے کھائے جا چکے ہیں۔
جب پوہم ینگ نے نئے شہر بسانے کا خواب دیکھا ہو گا تو انہوں نے یہ سوچا بھی نہ ہو گا کہ ان کے بسائے ہوئے یہ جدید چک اس قدر تباہی کا شکار ہوں گے۔ جب کبھی کسی رشتہ دار کی خوشی و غم کی وجہ سے چھیانوے شمالی جانے کا موقع ملتا ہے تو راستے کے ہر چک کو دیکھ کر اپنے گاؤں کی بربادی کا غم کچھ ہلکا ہو جاتا ہے کیونکہ یہ تباہی ایک وبا کی طرح ہر طرف یکساں طور پر پھیلی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ بھی خیال آتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ انگریز چاہے پورے برصغیر کو آزاد کر دیتے مگر کم از کم چھیانوے شمالی کا انتظام اپنے پاس رکھتے تاکہ یہ اسی طرح ایک منظم اور جدید گاؤں کے طور پر ترقی کرتا۔
Comments are closed.