گل مکدی مکا و
نیاز حسین ولانہ
پروفیسر ریاض کے ڈیرے پر اہل محلہ روایتی گپ شپ میں مصروف تھے۔ موضوع سخن آنے والے عام انتخابات اور متوقع نتائج تھا۔ محفل میں ہر عمر اور ہر مزاج کے لوگ موجود تھے۔ اکثر لوگ کم تعلیم یافتہ تھے اس کے باوجود سیاسی شعور میں کوئی بھی کسی سے پیچھے نہیں تھا ہر کوئی اپنی پسندیدہ پارٹی اور لیڈر کے متعلق فیس بک اور ٹی وی پروگرامز کے حوالے دے کر اپنا نقطہ نظر بیان کر رہا تھا۔
بڑی عمر کے لوگوں کی اکثریت مسلم لیگ نون اور نواز شریف کی حمایت میں دلائل دے رہی تھی تو نوجوانوں کی اکثریت تحریک انصاف اور عمران خان کو ملک کے تمام مسائل کا حل ثابت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ بحث جب طوالت اختیار کر گئی اور دونوں گروپ جب روایتی دلائل دے کر بھی ایک دوسرے کو قائل نہ کر سکے تو پروفیسر ریاض صاحب جو ابھی تک خاموش بیٹھے بڑے غور سے حاضرین کی باتیں سن رہے تھے اور ہلکے ہلکے مسکرا رہے تھے جیسے وہ چاہتے ہوں کہ سب پہلوان اپنے دلائل کے دائو پیچ آزما لیں ۔
میں نے اونچی آواز میں نمبردار فضل کریم صاحب کو کہا کہ آپ تین ایسی وجوہات بتا کر ہمیں قائل کریں کہ ہم نون لیگ کو ووٹ کیوں دیں۔ نمبردار فضل کریم صاحب نے جو پہلے زور و شور سے کہہ رہے تھے ہمارا ووٹ تو صرف شیر کا ہے سوچ میں پڑ گئے۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولے اس لئے کہ نواز شریف نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا۔ اس کو جھوٹے مقدمے میں دس سال کی سزا دی گئی ہے اور اس کی معصوم بیٹی کو سات سال قید کی سزا دی گئی ہے ان کو اڈیالہ جیل میں بدبودار کمرے میں رکھا گیا ہے اس کی لیٹرین بدبودار ہے۔
نوجوان ارشد فوراً بولا اگر بدبودار کمرے اور لیٹرین کا مسئلہ ہے تو پھر میاں صاحب کو ووٹ کی نہیں ائیر فریشنر کی ضرورت زیادہ ہے اس پر محفل میں قہقہے بلند ہوئے فضل کریم صاحب کھسیانے ہو کر بولے ہمدردی کا ووٹ میاں صاحب کو ملنا چاہئے اور ملے گا بھی آپ دیکھنا اگر الیکشن منصفانہ ہوئے تو نون لیگ پنجاب اور مرکز میں 2013ء سے بھی زیادہ سیٹیں جیتے گی۔
پروفیسر صاحب بولے سیٹوں پر بات بعد میں کریں گے ابھی نوجوانوں میں سے کوئی تین وجوہات بتائے کہ ہم پی ٹی آئی کو ووٹ کیوں دیں۔ تین چار نوجوان کھڑے ہو کر بولنا شروع ہو گئے۔ پروفیسر صاحب نے ہنس کر کہا آپ لوگ آپس میں فیصلہ کر لیں پی ٹی آئی کا نقطہ نظر کون بتائے گا پھر دو تین نوجوان کھڑے ہو گئے ایک کہے میں بتائوں گا دوسرا کہے میں بتائوں گا۔
منشی اللہ دتہ نے کہا اس بار یہی مسئلہ پی ٹی آئی کا ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت تھا ان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی اتنے زیادہ امیدواروں میں سے کس کو ٹکٹ دیں پرانے نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دیں یا نئے آنے والوں کو جن کو Electables کا نام دیا گیا تھا۔
عمران خان نے بطور اپوزیشن لیڈر جو کردار ادا کیا اس سے لوگوں میں حوصلہ اور شعور آیا اب وہ اپنے حقوق کی بات زیادہ واضح انداز میں کرتے ہیں۔
اس لئے بنی گالہ کے باہر بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں نا انصافی پر نہ صرف احتجاج کیا گیا بلکہ دھرنا تک دیا گیا جس کے نتیجے میں بعض ٹکٹ تبدیل اور واپس بھی ہوئے جن میں بعض کی وجہ شاید تحریک انصاف کی سیٹیں کم بھی ہو سکتی ہیں۔ مثلاً ملتان میں این اے 154 کا ٹکٹ پہلے سکندر بوسن کو دیا گیا ۔
اس حلقہ کے امیدوار احمد حسین ڈیہڑ کے حامیوں نے پانچ روز تک بھی گالہ میں دھرنا دیا اور مجبوراً خان صاحب کو سکندر بوسن سے ٹکٹ واپس لے کر احمد حسین دیہڑ کو دینا پڑا۔ سکندر بوسن ایک الیکٹیبل تھا جس کے اپنے ذاتی ووٹ بھی تھے اور پارٹی ووٹ ملا کر اس کی جیت یقینی تھی۔ احمد حسین ڈیہڑ کے جیتنے کے امکانات کافی کم ہیں۔
چاچا نواز بولا منشی صاحب آپ نے بہت اچھا تجزیہ کیا میں بھی پہلے ہمیشہ نون لیگ کو ووٹ دیتا تھا لیکن اس بار میرے بچے ضد کر رہے ہیں کہ اس بار کسی اور پارٹی کو ووٹ دیا جائے لیکن جب امیدواروں کو دیکھیں تو تبدیلی والی پارٹی میں بھی وہی امیدوار نظر آتے ہیں جو پہلے بھی اقتدار پارٹی میں تھے یہ جو آپ نے مشکل سا لفظ الیکٹیبل استعمال کیا ہے ان کو اکثر لوگ تو لوٹے کہتے ہیں۔ اس پر قہقہے بلند ہوئے۔
منشی اللہ دتہ نے اپنی عینک سیدھی کی اور گویا ہوئے۔ ہم صرف تصویر کا ایک رخ ہی دیکھتے ہیں کبھی ہم نے کسی ’’لوٹے‘‘ سے بھی پوچھا کہ آپ نے پارٹی کیوں تبدیل کی۔ اگر ایک ممبر منتخب ہونے کے بعد پانچ سال تک اپنی پارٹی لیڈر سے ہاتھ تک نہ ملا سکے۔ دو منٹ ملاقات کر کے اپنے حلقے کے مسائل نہ بتا سکے اسے ملاقات کا ٹائم ہی نہ دیا جائے یا اس طرح کے جائز مسائل کا سامنا کرنا پڑے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟۔
جمہوریت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جب آپ پارٹی میں جمہوریت نہیں لا سکتے تو آپ ملک اور حکومت میں جمہوری رویوں کو فروغ کیسے دے سکتے ہیں۔ چاچا قادر جو خاموشی سے سب کچھ سن رہے تھے حقے کا کش لے کر بولے ایسے ممبر کو چاہئے اسی وقت احتجاج ریکارڈ کرائے میڈیا کے ذریعے اپنی بات عوام تک پہنچائے اور اگر پھر بھی بات نہ بنے تو اسی وقت پارٹی اور سیٹ سے استعفیٰ دے کر عوام میں آ جائے۔
پانچ سال اقتدار پارٹی میں رہ کر اگلے الیکشن میں جب اقتدار کسی دوسری پارٹی کی طرف جاتا نظر آئے تو نئی اقتدار پارٹی کی بس میں سوار ہونا مطلب پرستی اور خود غرضی ہے۔ عوام کو چاہئے ایسے مطلب پرست خود غرض لوٹوں کو مسترد کر دیں۔ پروفیسر ریاض بولے چچا قادر کی بات بھی ٹھیک ہے لیکن منشی اللہ دتہ کی بات بھی اہم ہے اب ہر کوئی زعیم قادری‘ عبدالغفار میو‘ ذوالفقار مرزا یا فہمیدہ مرزا کی طرح تو نہیں ہو سکتا کہ جن کا اپنا ووٹ بینک بھی ہو اور وہ اپنی پارٹی قیادت سے اختلاف رائے کی جرأت بھی کر سکیں۔
اس کیلئے پارٹی قیادت اور نظریاتی کارکنوں کو سوچنا چاہئے کہ پارٹی ممبران کو اپنے حلقہ کے مسائل اور دیگر امور میں رہنمائی اور آگاہی کا نظام موجود ہونا چاہئے کیا کبھی کسی نے سردار جعفر لغاری یا سردار ذوالفقار کھوسہ سے پوچھا کہ جس عزت و احترام کے وہ مستحق تھے وہ ان کو ان کی سابقہ پارٹی میں ملا؟ یا صرف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ایجاد کرنا ہی کافی تھا۔
نوجوان اکرم بولا سر مجھے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی سمجھ نہیں آئی۔ پہلے تو پارٹی منشور کی بنیاد پر انتخابی نعرے ہوتے تھے جیسے پیپلز پارٹی کا نعرہ تھا ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘۔ منشی اللہ دتہ بولے اس کے بعد پیپلز پارٹی نے نعرہ دیا تھا ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ لگتا ہے نون والوں نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کو انتخابی نہیں انتقامی نعرہ کے طور پر سوچا ہے۔
ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ پروفیسر ریاض صاحب کے دوست پروفیسر سلیم صاحب لاہور سے تشریف لے آئے سلام دعا کے بعد وہ بھی شریک گفتگو ہو گئے۔ پروفیسر ریاض صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ 13 جولائی کو لاہور میں تھے آپ بتایئے وطن واپسی پر میاں نواز شریف صاحب کا کیسا استقبال ہوا اور اس کا اثر 25 جولائی والے انتخابات پر کیا ہو سکتا ہے۔ پروفیسر سلیم صاحب نے بتایا کہ اس شام میرے اپنے حلقہ کے سابق ایم این اے جو اب بھی اسی حلقہ سے نون لیگ کے امیدوار ہیں نے بتایا کہ میرے پاس تین چار ہزار ورکرز تھے میں ان کو لے کر جوڑا پل تک تو گیا لیکن اس سے آگے جانا میرے لئے ممکن نہ تھا۔
اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ راستے بند تھے یا کنٹینر لگے تھے یا پولیس کا ڈر تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ یہی تین چارہزار میری فیلڈ فورس ہے میں نے الیکشن کمپین کرنی ہے انہی میں سے پولنگ ایجنٹس بنانا ہیں اور پورا الیکشن لڑنا ہے۔ اگر ان میں سے سو دو سو بھی ہنگامہ آرائی اور مقدمہ بازی میں پھنس جاتے یا ان کے خلاف یا میرے خلاف مقدمات بن جاتے تو میں تو الیکشن سے آوٹ ہو جاتا… ہم ائیر پورٹ پہنچتے یا نہیں میاں صاحب نے تو اڈیالہ ہی پہنچنا تھا…
پروفیسر صاحب نے بتایا کہ میں نے پوچھا کہ یہ عقلمندی کی بات صرف آپ تک تھی یا ساری مسلم لیگ قیادت کی مشترکہ سوچ تھی تو انہوں نے بتایا کہ چند ایک سنیٹرز کے علاوہ تمام قیادت بشمول چھوٹے میاں صاحب! ٹھاٹھیں مارتا سمندر دکھانے اور بتاتے والے چند نادان اس نتیجہ میں شامل نہ تھے کیونکہ انہوں نے الیکشن نہیں لڑنا وہ پہلے ہی سنیٹرز بن چکے ہیں اور کڑاکے نکالتے رہتے ہیں۔ پروفیسر سلیم صاحب کے اس تجزیہ سے محفل میں سناٹا چھا گیا…
تھوڑی دیر بعد چاچا نواز پروفیسر ریاض صاحب سے مخاطب ہوا سر اگر اجازت ہو تو ان سے پوچھیں ان کاتجزیہ کیا ہے۔ اس الیکشن میں وزیراعظم کون بنے گا؟
پروفیسر سلیم صاحب مسکرا کر بولے جسے آپ بنائیں گے۔ سب ہنسنے لگے انہوں نے بھی قہقہہ لگایا اور بولے جی ہاں جسے عوام کی اکثریت ووٹ دے گی پروفیسر ریاض صاحب نے کہا آپ کا تجزیہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی اور نون لیگ میں سے سے کون سی پارٹی لاہور میں زیادہ کامیابی حاصل کرے گی۔ سلیم صاحب نے بتایا اصل صورتحال تو 26 جولائی کو ہی پتہ چلے گی جب نتائج مکمل ہوں گے۔
آج تک کے تجزیئے کے مطابق لاہور کی 14 قومی اسمبلی کی سیٹوں میں سے سات پر نون لیگ کا پلڑا بھاری لگ رہا ہے اور سات سیٹوں پر پی ٹی آئی کی بہتر پوزیشن لگتی ہے البتہ باقی پنجاب میں پی ٹی آئی زیادہ بہتر پوزیشن میں محسوس ہوتی ہے۔ ایک جیالے نے پوچھا اور پیپلز پارٹی آپ کو پنجاب میں کہاں نظر آتی ہے۔ پروفیسر سلیم صاحب نے مسکرا کر جواب دیا ٹی وی میں۔
بلاول نے پنجاب میں کافی کوشش کی ہے اور کچھ جلسے بہتر تھے لیکن سیٹیں جیتنے کیلئے مطلوبہ ووٹ شاید چھ سات سیٹوں پر ہی ممکن ہوں اگر پیپلز پارٹی پنجاب سے دس سیٹیں جیت جاتی ہے تو آصف زرداری وزیراعظم کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ اس فقرے سے محفل میں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔ دو منٹ بعد ایک جیالے نے نعرہ لگایا… زندہ ہے بھٹو… زندہ ہے… اس کے بعد تمام حاضرین نے قہقہہ لگایا۔ چچا نواز بولا ’’پروفیسر صاحب‘‘ گل مکدی مکاو… سانوں مشورہ دیو اسی کس نوں ووٹ دیئے‘‘ پروفیسر صاحب بولے ’’آپ اس پارٹی کو ووٹ دیں جس کو آپ ملک چلانے کیلئے بہتر سمجھتے ہوں‘‘ چچا نواز کی تسلی نہ ہوئی… دوبارہ پوچھا آپ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے…
پروفیسر صاحب خاموش رہے ایک نوجوان بولا اس بار تمام پڑھے لکھے لوگ پی ٹی آئی کو ہی ووٹ دیں گے۔ پروفیسر صاحب مسکرائے اور بولے تو پھر پی ٹی آئی ہار جائے گی… کیونکہ پڑھے لکھے ووٹر کم ہیں اور ان پڑھ ووٹرز زیادہ ہیں اور جمہوریت میں ووٹوں کو گنا جاتا ہے۔ ایک بندے کو دو پی ایچ ڈی پروفیسر ووٹ دیں اور دوسرے کو تین ان پڑھ تو جمہوریت کی رو سے کون جیتا؟ سب نے یک زبان ہو کر رہا جس کو تین ووٹ ملے۔
پروفیسر صاحب نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ملکی معیشت کی تباہ حالی ہے۔ ہمارا ملک معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ اس کیلئے ہمیں وسائل کا بندوبست کرنا ہو گا کرپشن کو ہر سطح پر ختم کرنا ہو گا۔ اداروں کو غیر سیاسی اور مضبوط بنانا ہو گا۔ خصوصاً نیب اور ایف آئی اے کو اپنا کام محنت اور ایمانداری سے کرنا ہو گا اس کیلئے یا تو چائنا ماڈل آف اکائونٹیبلٹی اپنانا ہو گا یا سعودیہ ماڈل جس میں 30 دن میں انہوں نے 30 ارب ریال وصول کئے تھے یہ کام عمران جیسا سر پھرا ہی کر سکتا ہے۔
Comments are closed.