ڈاکٹر عبدالسلام۔ ۔۔۔۔ہمارا ہیرو
نسیم کوثر
29 جنوری 1926ءکو پاکستان کے ایک چھوٹے سے پسماندہ قصبے جھنگ میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کی ذہین آنکھیں اور کشادہ جبیں ایک روشن مستقبل کی پیش گوئی کرتی تھیں۔ اس بچے نے جب میڑک کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی لاہورکی تاریخ کے سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے تو زمانہ چونک اٹھا اور پے در پے ملکی و غیر ملکی وظائف کے ذریعے اس پر سائنسی علم و تحقیق کے در وا ہوتے گئے۔ یہ شخص 1949ءمیں سینٹ جونز کالج، کیمبرج جا پہنچا۔ اگلے ہی سال اس ذہین نوجوان نے کیمبرج یونیورسٹی سے نمایاں ترین خدمات کے لیے سمتھ پرائز جیت لیا۔
یہ نوجوان پاکستان لوٹا اور دو سال کے اندر اندر پنجاب یونیورسٹی کے ریاضی کے شعبہ کا چئیرمین مقرر ہو گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں اس شخص کو کن مسائل،سازشوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا یہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن یہاں یہ جاننا اہم ہے کہ یہ شخص پاکستان میں یونیورسٹی کی سطح پر سکول آف ریسرچ کی بنیاد رکھنا چاہتا تھا۔لیکن جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ یہ ممکن نہیں۔ اس نے ملک چھوڑا اور کیمبرج یونیورسٹی میں جا کر سائنسی تحقیق کے عالمی میدان میں دنیا کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اس دوران درد دل رکھنے والا یہ محب الوطن پاکستانی اپنے دیس کو بھولا نہیں تھا۔ اس نے آئی سی ٹی پی میں ایسوسی ایٹ شپ کے نام سے ادارہ قائم کیا جہاں دنیا کے ذہین اور قدرتی صلاحتیوں سے مالا مال مستحق نوجوانوں کو سائنسی تحقیق کے معیاری اور توانا ماحول میں دقیق قسم کے تحقیقاتی ہنر سیکھنے کو ملتے تاکہ وہ تازہ دم واپس لوٹ کر بہتر انداز میں اپنی خدمات پیش کریں۔
آنے والے وقت نے دیکھا کہ یہ شخص نیوکلئیر سائنس و خلائی تحقیق کے میدان میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا۔ ملکی سائنسی پالیسی کا ایڈوائزر رہا۔ وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا ممبر رہا۔ سائنٹیفک کمیشن آف پاکستان کا ممبر رہا۔ ستر کی دہائی کے آغاز میں پاکستان میں سائنسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس وقت پاکستان اٹامک انرجی کمیشن محض ایک کمرے پر مشتمل تھا جہاں دس سے بھی کم سائنس دان کام کرتے تھے۔ مذکورہ شخص جب اس کمیشن کا ممبر بنا تو اس نے سائنسی سرگرمیوں کو پھیلانے کی غرض سے پانچ سو کے قریب سائنسدان تعلیم وتربیت کے لیے باہر بھیجے۔ اگلے ہی سال اس نے صدر ایوب کو اولین قومی خلائی ایجنسی اور سپیس ریسرچ کمیشن کے قیام کے لیے قائل کر لیا۔ ستر کی دہائی کے اختتام تک یہ شخص پاکستان میں تھیوریٹیکل فزکس اور پارٹیکل فزکس کے تمام تحقیقی اور انتظامی معاملات کا مرکز بن چکا تھا۔ اس کی تجویز پر عشرت حسین عثمانی نے پلوٹینیم اور یورینئیم کے پھیلاو ¿ کی کمیٹیاں قائم کیں۔
یہ شخص امریکہ گیا۔ امریکی گورنمنٹ کے ساتھ سپیس کواپریشن کا معاہدہ طے کیا۔ اور یوں بلوچستان میں ناسا کے لیے فائٹ ٹیسٹ رینج (سپیس فیسیلٹی) کا اہتمام کیا گیا۔ یہ شخص اس کا پہلا ٹیکنیکل ڈائریکٹر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں پیش رفت میں اس شخص کا نمایاں اور اہم کردار ہے۔ وہ سالہا سال تک آئی اے ای اے کا سربراہ رہ کر پوری دنیا میں پاکستان کے ایٹمی حقوق کا کیس لڑتا رہا۔ اسی کی کوششوں سے پاکستان اور کینیڈا کے درمیان نیوکئیر انرجی ڈیل طے پائی۔ کراچی میں نیوکلئیر پاور پلانٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی تناظر میں امریکہ نے پاکستان کو ریسرچ ری ایکٹر فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ 1965میں ایڈوارڈ ڈوریل سٹون نے اسلام آباد میں پاکستان انسٹیتوٹ آف نیوکلئیر سائنس کے قیام کے لیے اس شخص کے ساتھ ایک کنٹریکٹ سائن کیا۔ یہاں ایک ان کشاف آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دے گا کہ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کیونکہ مذکورہ شخص 1961سے لے کر 1974 تک صدر پاکستان کا چیف سانٹیفک ایڈوائز رہا۔
لیکن پھرحالات نے ڈرامائی شکل اختیار کی اور اس نے غمگین دل کے ساتھ 1974ءمیں خاموشی سے یہ ملک چھوڑ دیا اورکبھی واپس لوٹ کر نہ آیا۔ یہ اعلی پائے کی نفیس اور شخصیت کا پر امن احتجاج تھا۔ لیکں ہم امن اور دھیرج کو سگریٹ کے دھوئیں میں اڑا دینے والی طبعیت کے مالک واقع ہوئے ہیں۔ ہمیں اس کے چھوڑ جانے کی پروا نہیں تھی۔ ہم نے سائنس کے میدان میں نابغے پیدا کر لیے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو جس میں اس شخص کی محنت اور کاوشیں مساوی طور پر شامل تھیں ایک خود تراشیدہ ہیرو کے سپرد کر کے اس کی پوجا شروع کر دی اور اس باکمال شخص کو مکمل طور پر فراموش کر دیا۔
شاید یہ داستان اب تک سائنسی و علمی شغف رکھنے والوں کو بڑی رومانوی اور دلفریب لگی ہو۔ بہت سے لوگ اس شخص کی ذہانت اور قابلیت کے قائل بھی ہو گئے ہوں۔ دو چار لوگ تو ولولہ انگیزی کے لیے یہ داستان اپنے بچوں کو بھی سنانا چاہ رہے ہوں لیکن جیسے ہی ان پر اس شخص کی شناخت آشکار ہو گی یہ لوگ نفرت سے منہ پھیر لیں گے۔ جی ہاں آپ نے بوجھ لیا۔ یہ شخص مردود عبدالسلام قادیانی ہے جس نے دنیا کا سب سے بڑا اعزاز نوبل انعام تو جیتا لیکن اس قابل نہیں کہ ہمارے دلوں میں اتنی سی بھی جگہ بنا سکے کہ ہم ہر سال اس کی برسی پر اور کچھ نہیں تو ایک آدھ سیمینار ہی منعقد کر لیں۔ یا کسی اخبار میں ایک ٹوٹے پھوٹے اداریے کا اہتمام کر لیں۔ یا ٹی وی پر ایک چھوٹا سا اسٹیکر چلا دیں۔ بارڈر کے اس پار زمانے کو پتا نہیں کیا جس نے سنگاپور میں اس کی برسی پر تین روزہ تقریب کی اور نوجوانوں کو اس کی سائنسی خدمات سے روشناس کروایا۔
آئیے ہم اپنے اصول پسندی کا ایک اور رخ ملاحظہ کرتے ہیں۔ ہم اپنی نصاب کی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ لنکنز ان کالج، لندن میں قائد اعظم نے اس لیے داخلہ لیا کیوں کہ وہاں پیغمبر اسلام ﷺ کا نام سر فہرست کندہ تھا۔ ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا جو انسانی حقوق کا چارٹ ہے اس کے پہلے تئیس نکات خطبہ حج الوداع سے اخذ ہیں۔ ہم فخر سے پروپگینڈہ کرتے ہیں کہ فلاں ملک کے فلاں شہر کی سڑک شاعر مشرق کے نام سے منسوب ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اہل یورپ ہزار سال تک ہمارے پرکھوں کی طب پر لکھی کتب بطور نصاب پڑھاتے رہے ہیں۔ یوں ہم امام ہیں۔ ہم پیشوا ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے دنیا کو پہلی دفعہ پولیس کے نظام سے متعارف کروایا۔۔ مغرب کی موجودہ سوشل سروسز کا ڈھانچہ عہد فاروق سے ملتا جلتا ہے۔ ابن خلدون کی صورت میں ہم نے زمانے کو ماہر معاشیات اور ماہر عمرانیات عطا کیا۔
توصاحبو! غور طلب نکتہ یہ ہے کہ ہم نے دنیا کو کچھ نہیں دیا۔ دنیا نے ہم سے یہ سب لیا ہے کیونکہ دنیا لینے، اپنانے اور استفادہ حاصل کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ کیونکہ وہ علم و دانش کو پوری انسانیت کی معراج سمجھتی ہے نا کہ کسی ایک قوم، ایک قبیلے، ایک نظریے یا مذہب کی۔ یوں دنیا ہم سے ہمارا بہترین مستعار لینے میں نہ شرمائی اور نہ ہی کسی کی خود ساختہ انا کو اس سے ٹھیس پہنچی۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ دنیا ترقی و تہذیب کے میناروں پر براجمان ہو گئی جب کہ ہم نیچے کھڑے بونوں کی طرح اچھل اچھل کر ان کو چھونے کی کوشش تو کررہے ہیں لیکن اتنی اخلاقی جرات نہیں رکھتے کہ اپنے علاوہ کسی کی ذہانت، قابلیت اور انسان دوست کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے استفادہ کرکے اپنے قدو قامت میں اضافہ کر سکیں۔ بلکہ ہم تو اپنے گمشدہ ہیروز کو بھی تلاش کرنا گوارا نہیں کرتے۔ اور نہ ہی ہم نفرت اور تعصب میں اپنے قابل ترین ہیروز کو دریا برد کرنے کے پشیمان ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس صف میں سبھی کھڑے ہیں۔ کیا قدامت پسند، کیا لبرل، کیا سوشلسٹ اور کیا قوم پرست۔ ہم سب نے اپنے اپنے بت تراش رکھے ہیں۔ باچا خان، مودودی، بھٹو، عمران خان، شریف زادے…. پرستاروں کی صف میں آپ کو سب ملیں گے۔ ملاں بھی، کافر بھی، پنجابی بھی، بلوچی بھی، پٹھان بھی سندھی بھی۔ مگر کوئی ایسا پاکستانی نہیں ملے گا جو رنگ، نسل زبان، قومیت، نظریے اور مذہب سے بالا تر ہو کرایک پاکستانی ہیرو تراش سکے…. یا کسی گمشدہ کو پکار سکے۔
(بشکریہ ہم سب)
Comments are closed.