کاش میں صحافی نہ ہو تا
دل حقیقتاً رو رہا ہے، انتہائی بوجھل دل کے ساتھ لکھ رہا ہوں، کسی کام میں دل نہیں لگ رہا۔ سوچا ایسے ہی دل ہلکا ہو جائے ۔ کاش علی فرقان کی بھیجی ہوئی آڈیو سنی ہی نہ ہوتی۔ مجھے نہ پتا چلتا یہ ذیشان بٹ کون تھا، کیسے مارا گیا؟۔
سمبڑیال کا نوائے وقت اخبار کا نامہ نگار ذیشان بٹ یونین کونسل کے دفتر گیا، جہاں اس نے دکانوں پر لگائے گئے ٹیکس کے حوالہ سے تفصیلات طلب کیں، تفصیلات کیا ملنی تھیں۔ یونین کونسل کے ن لیگی چیئرمین عمران چیمہ نے ذیشان کو نہ صرف گالیاں دیں بلکہ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
ایک ایسے اخبار کا نامہ نگار جہاں دو دو ماہ کی تنخواہیں بقایا ہیں اور صحافتی تنظیمیں اس حوالہ سے احتجاج کرنے کے منصوبے ترتیب دے رہی ہیں، وہاں بغیر تنخواہ کام کرنے والے ذیشان بٹ کو اپنے صحافی ہونے کا زعم ہوا۔
اسے کیوں کر یہ خیال آیا کہ وہ خبر کے لیے کہیں بھی جا سکتا ہے اور ہر افسر اس کے سوال کا جواب دینے کا پابند ہے؟۔ اس کا خیال تھا یہ صرف دھمکیاں ہیں، سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں کوئی کیسے دن دیہاڑے ایک خبر کے حوالہ سے پوچھنے والے صحافی کو گولی مار سکتا ہے۔
اس لیے وہ اسی دفتر میں موجود رہا ۔ وہیں سے اس نے پولیس سٹیشن کو کال ملائی ملنے والی دھمکی کا بتایا اور پھر اس نے چیئرپرسن تحصیل کونسل حنا ارشد وڑائچ کو فون ملایا۔
وہ فون پر خاتون چیئرپرسن کو بتا ہی رہا تھا کہ یو سی چیئرمین نے تفصیلات مانگنے پر گالیاں بھی دیں اور یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اسے جان سے مار دیا جائے گا۔ اسی وقت گولی چلنے کی آواز آتی ہے، پھر ایک نہیں، دو نہیں ، تین نہیں۔۔ پانچ چھ گولیاں چلتی ہیں۔
ایسے میں فون کیسے ہاتھ میں رہ سکتا تھا، فون ہاتھ سے گر گیا تھا۔ذیشان بٹ بھی آنکھوں میں حیرت اور تکلیف لیے زمین پر گرتا ہے۔ ایک کے بعد ایک گولی لگنے کے بعد جسم میں کئی سوراخ ہوئے جن سے خون بہہ رہا تھا۔ پھر ایک آخری سانس کے ساتھ آہ نکلی۔
خاتون چیئرپرسن ہیلو ہیلو پکارتی رہی، اس خاتون کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہو گاکہ یو سی چیئرمین اتنا بڑا غنڈہ ہو گا کہ وہ دفتر میں پستول رکھ کر نہ صرف بیٹھا ہو گا بلکہ گولیاں بھی چلا سکتا ہو گا۔
گولیاں چلانے کے بعد کیا ہوا یا کیا نہیں، یہ نہیں معلوم لیکن وہ نوجوان خبر کی جستجو میں مارا گیا۔ صحافتی تنظیموں کے لیے ایک اور احتجاج کا موقع ہاتھ آ گیا۔ اب ملک گیر مظاہروں کا اعلان ہو گا۔ ہم مقتول کے ورثا کے ساتھ ہیں۔ ہم انصاف لیں گے، ہم چھین کے لیں گے آزادی، زندہ ہیں صحافی زندہ ہیں۔
کیا مذاق ہے ہمارے ساتھ۔۔ ہمارا خون گرتا ہے مگر اس کا رنگ کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر کوئی از خود نوٹس بھی نہیں لیتا۔ ہمارا معاشی قتل ہو، یا ہمارے ساتھی کو دن دیہاڑے گولی ماری جائے، اس کے بچوں کو یتیم کر دیا جائے۔۔ کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ہر سیاستدان، ہر وزیر۔۔ سب لوگ مذمتی بیان جاری کریں گے۔ ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا عہد ہو گا۔ صحافی تنظیمیں اس پر مظاہرے کریں گی۔ پھر اس کے بچوں کو کیسے دربدر انصاف کے حصول کے لیے مارا مارا پھرنا پڑتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔
وہ انصاف کے حصول کے لیے بھاگیں یا پھر گھر کے ٹھنڈے پڑے چولہے کو جلانے کے لیے تعلیم کی قربانی دے کر کہیں ملازمت کریں یا مانگتے پھریں گے؟۔ کیسا ظلم ہے کہ معاشرہ میں کسی کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی آواز بننے والے صحافی کی آواز بننے کو بھی کوئی تیار نہیں ہوتا۔
عدالت ہر معاملہ پر نوٹس لیتی ہے اس پر بھی ازخود نوٹس لے ورنہ یہاں تو گواہوں اور ثبوتوں کے بدل جانے میں وقت ہی نہیں لگتا، اس کیس کے حوالہ سے پولیس کی رپورٹ پڑھ لیں میری بات درست ثابت ہو جائے گی ۔حیات اللہ شہید کے تمام اہل خانہ کو باری باری قتل کرنے والے آج بھی آزاد ہیں۔جناب عالی ، سیاسی کیس پھر کبھی سن لیجئے گا، اس وقت ذیشان بٹ کے خون کی پکار سن لیں۔
ان کے اپنے ادارہ میں جسے خبر دینے کی پاداش میں انہیں مٹایا جاتا ہے وہ بھی ایک دو روز کا رسمی سوگ منانے کے بعد اس کے بچوں کو دربدر پھرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ تو اس کے بچوں سے یہ بھی نہیں کہتے کہ بیٹا فکر نہیں کرنا ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
پھر بھی ہمارا نعرہ ہے زندہ ہیں صحافی زندہ ہیں۔ ہم چھین کے لیں گے آزادی، تیرا باپ بھی دے گا آزادی۔۔ باپ سے چھوڑیں صحافت کو مشن کے بجائے کاروبار بنانے والے مالکان سے ہی لے کر دکھائیں آزادی تو مانیں۔
جو آپ کو دو دو تین تین ماہ تنخواہیں نہیں دیتے، جو آپ کو وہ بنیادی حقوق نہیں دیتے جس کا ضامن آئین پاکستان ہے، اس سے تو آپ آزادی نہیں لے سکے، کسی اور طاقتور سے کیا آزادی لیں گے؟۔
ہے حوصلہ تو کریں اعلان صحافتی تنظیموں کے نام پر بڑی بڑی دکانیں کھول کر بیٹھنے والے بڑے بڑے لیڈر حضرات ۔۔ ہر صحافی کو ایک نظر سے دیکھا جائے گا، تمام مالکان اخبارات و ٹی وی چینل کا احتساب ہو گا، ان سے بھی حساب مانگا جائے گا۔
لیکن اس سے پہلے آج تو خون کا حساب مانگا جائے، ذیشان بٹ کو ایک ٹیسٹ کیس بنائیں۔ عدالت بھی، پولیس بھی اور صحافتی تنظیمیں بھی۔ اگر کسی کو اس مقتول کی آواز اپنے جیسی نہیں معلوم ہوتی تو وہ آڈیو ریکارڈنگ سن لے، دم نکلنے سے پہلے اس کی آخری آہ سن لے، مجھے تو یوں لگا جیسے وہ آہ کہتی ہو، کاش میں صحافی نہ بنتا، کاش میں خبر کی جستجو نہ کرتا۔
Comments are closed.