اشفاق احمد کے بعد عرفان صدیقی ۔۔ دہشتگرد کون استاد یا پولیس ؟
وقار حیدر
اشفاق احمد اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ اٹلی کے شہر روم میں مقیم تھا تو ایک بار اپنا جرمانہ بروقت ادا نہ کرنے پر مجھے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ جب جج نے مجھ سے پوچھا کہ جرمانے کی ادائیگی میں تاخیر کیوں ہوئی تو میں نے کہا کہ میں ایک ٹیچر ہوں اور کچھ دنوں سے مصروف تھا اس لئے جرمانہ ادا نہیں کر پایا۔
اس سے پہلے کہ میں اپنا جملہ مکمل کرتا، جج اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور بآواز بلند کہنے لگا ”عدالت میں ا یک استاد تشریف لائے ہیں!“ یہ سنتے ہی عدالت میں موجود سب لوگ کھڑے ہو گئے۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ اس قوم کی ترقی کا راز کیا ہے۔
دوسری جانب سینکڑوں سول ، فوجی بیوکریٹس اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سروس انجام دینے والوں کے 78 سالہ استاد ، ماہر تعلیم ، مصنف ،دانشور ، نثر نگار ،شاعر اور صاحب طرز کالم نگار جناب عرفان الحق صدیقی صاحب ہیں انکی عزت افزائی کی دستان تو زبان زد عام ہے۔ رات کے پچھلے پہر پولیس گھر پر وارد ہوتی ہے۔ کرایہ داری ایکٹ کے جرم میں پولیس وین میں ڈال کر لے جاتی ہے ۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں اس وقت کچھ لکھ رہا تھا قلم ہاتھ میں تھا ،دہشتگردوں کی طرح پکڑ کر لے جایا گیا۔ ہمارے ملک کی ترقی کا راز بھی قانون کے رکھوالوں کے ہاتھ میں ایک استاد کیساتھ دہشتگروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اس بزرگ شخص کو ہتھکڑی لگائی جاتی ہے اور توجیح یہ دی جاتی ہے کہ گرفتاری کے وقت مزاحمت ہوئی اس لیے ہتھکڑی لگائی کوئی خلاف قانون کام نہیں کیا۔
ان دونوں واقعات سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ یا ہمارے ملک کا قانون اندھا ہے یا قانون کے رکھوالے اندھے ہیں جن کو اتنی بھی پہچان نہیں کروائی گئی کہ کس کے کیساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے۔ دوسری بات جو نظر آئی وہ استاد کی عزت ہے ۔
کیا اب کوئی استاد بننا پسند کریگا ؟ یہ کوئی بات ہی نہیں ہمارے ہاں ایک سترھویں یا اٹھارہویں گریڈ کے استاد کو جب چاہے ایک کانسٹیبل کہیں بھی روک لے بے عزت کر دے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔
جہاں استاد سے معاشرہ آگاہ ہے وہیں پر تھانہ اور تھانہ کلچر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، پولیس گھر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرے ، غلط انکوائری سے کسی بے گناہ کو کئی سال جیل بھیج دے ، مجرم کیساتھ ملکر مظلوم کے خلاف مقدمات درج کرے ،فرشتہ کے باپ سے چائے منگوائی جائے، جنوبی پنجاب میں گھر میں گھس کر خواتین پر ہاتھ اٹھایا جائے، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی ان جرائم پر مقدمہ بنانے والا نہیں کوئی انکو سزا دلوانے والا نہیں ۔
پولیس کی دہشتگردی سے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے ، پاکستان سٹیزن پورٹل پر ایک لڑکی کی اغواء کی شکایت درج ہوئی کہ پولیس عدم تعاون کر رہی ہے، شکایت سے ملزم تو پکڑے گئے لیکن پھر پولیس افسرا ن نے 20سالہ لڑکی کو اغوا کرنے والے مجمرموں کو 20ہزار روپے رشوت لے کر چھوڑ دیا۔
مطلب کیا ہی بات ہے اس ادارے کی ۔
سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں میں پولیس کی کارکردگی پر تنقید کی گئی ہے لیکن یقین کیجئے وزیراعظم کے پولیس اسٹیشن کے دوروں سے بھی نا کچھ بن پایا وجہ یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ یقینا کچھ اچھے اور فرض شناس پولیس اہلکار بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے باقی سب بچے ہوئے ہیں ۔
چیئرنگ کراس ، مناوا پولیس اسٹیشن اور دیگر جگہوں پر پولیس کی قربانیوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں لیکن یہاں بات ہی الگ ہے، یہاں مچھلی تالاب کو گندا نہیں کر رہی بلکہ تالاب ہی گندا ہے اگر کوئی صاف مچھلی آ ہی جاتی ہے تو یا وہ خود گندی ہو جاتی ہے یا پھر اس نظام سے اسکا دم گھٹ جاتا ہے۔ بات اتنی ہے کہ ہم عوام نے یہ دیکھنا ہے کہ بدلنا کیا ہے خود کو یا نظام کو اور دونوں ہی ہمارے ہی ہاتھ میں ہیں۔
Comments are closed.