9مئی ایک برا دن تھا
محبوب الرحمان تنولی
جس طرح ہم پاکستانی بحثیت قوم 9 مئی کے واقعات کو بھلا نہیں پائیں گے ایسے ہی یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود رہے گا کہ جہاں 9 مئی کو ہزاروں کا ہجوم فیصل آباد میں وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کے گھر کو کوشش کے باوجود تباہ نہیں کرسکا، وہاں سیکڑوں لوگوں کے جتھہ نے پاک فوج کی تنصیبات کو کیسے نقصان پہنچایا؟ اس روز پہرے دار کیوں غائب ہوئے یا پیچھے ہٹے۔
فرض کیا فوج اپنے عوام سے لڑنا نہیں چاہتی تھی تو پولیس تو گزشتہ کئی ماہ سے اسی عوام کے ساتھ حالت جنگ میں تھی، کبھی زمان پارک، کبھی جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد ، کبھی مختلف شہروں کی عدالتوں میں ہرروز پی ٹی آئی کارکنوں کے راستے روکتی لاٹھی چارج کرتی نظر آنے والی پولیس بھی اس روز فوجی تنصیبات پر حملہ آورہونے والے جتھوں کی راہ روکنے کےلئے کیوں سامنے نہ آئی؟
تحقیقات تو ہوتی رہیں گی کیونکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق10 ہزار کے قریب افراد خواتین سمیت جیلوں میں ہیں،ان پر دہشتگردی کے مقدمات بھی ہیں آرمی ٹرائل کورٹس کو بھی کیسز جارہے ہیں،ذمہ داروں کا تعین ہوگیا تو یقیناٰ ان کو سزا بھی ملے گی، قاضی سول عدالت میں بیٹھا ہو یا فوجی عدالت میں بحثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ مسند نشیں قاضی بھی جانتے ہیں کہ ایک اللہ کی عدالت بھی لگنی ہے جہاں دباو ہوگا نہ سفارش چلے گی، اس لئےتفریق کا سوچے بغیر میرٹ پر فیصلوں کی امید رکھنی چایئے۔
ایک بات جوقابل فہم اور بڑی سادہ سی ہے وہ یہ کہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ سے غیر قانونی گرفتاری ( بقول سپریم کورٹ ) کی جارہی تھی تو یہ حقیقت بھی پیش نظررکھنی چایئے تھی کہ ردعمل بھی آئے گا، بادی النظر میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ مظاہرین کو موقع دیا گیا کہ وہ اپنا کام مکمل کریں اور پھر اس کے بعد ان پر ہاتھ ڈالا جائے ، خاص کر پی ٹی آئی کے گرد احصار بنا لینے سے یہ تاثر ابھرا ہے۔
حیرت ان عقل سے عاری جائل مظاہرین پر بھی ہوتی ہے کہ کورکمانڈر ہاوس( جسے اس حملے سے پہلے بہت کم لوگ جانتے تھے کہ یہ جناح ہاوس ہے)میں اگر مزاحمت نہیں تھی توڑ پھوڑ کی کیوں کی گئی ؟ خاص کریادگار شہدا کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟ تم احتجاج کرنے آئے تھے یا فساد ۔۔ یقینا تحقیقات کے دوران یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ صرف پی ٹی آئی کے مظاہرین ہی تھی یا ان میں کارکنوں کی شکل میں اور لوگ بھی شامل ہوئے۔
غلط کام کا غلط نتیجہ ہوتا ہے اور یہ مظاہرین ہی نہیں عمران خان اور ان کی پارٹی بھی بھگت رہی ہے۔ پی ڈی ایم جو پہلے ہی تحریک انصاف سے سیاسی طور پر خوفزدہ تھی اور انتخابات سے بھاگ رہی تھی اسے یہ موقع میسر آگیا کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ سے مل کر پی ٹی آئی کو کریش کرنے کا عمل شروع کیا بلکہ اس کو ایسے بڑھاوا دیا کہ گویا وہ چاہ ہی یہی رہے تھے کہ ایسا کوئی سانحہ روح پذیر ہو۔
تحقیقات کرنے والوں کو اگر ادارے کے معاملات کو اندرونی احتساب تک محدود رکھنا ہے تو بے شک ایسا ہی کریں مگر پنجاب میں پولیس کی طرف سے فوجی تنصیبات پر حملوں کو نہ روکنےکی اوپن انکوائری ضروری ہے تاکہ یہ حقیقت تو آشکار ہو کہ پولیس بھی اس مبینہ سازش کا حصہ تو نہ تھی! ورنہ اگر25مئی 2022 کو لاکھوں کے جلوس کو بزور بازو ڈی چوک اسلام آباد آنے سے روکا جاسکتا تھا تو پھر چند سو لوگوں کو کیوں نہ روکا گیا؟
کہانی نے یہاں سے آگے ایک اور موڑ لیا۔ پی ڈی ایم کی خواہش پر پی ٹی آئی کے خلاف سیاسی کریک ڈاون شروع کردیا گیا، خاص کر وہ سیاستدان جو کبھی جہازوں میں بٹھا کر عمران خان کی پارٹی کا حصہ بنائے گئے تھے وہی لوگ اتنی ہی تیزی سے پارٹی چھوڑنے لگے۔ یہ حقیقت زیادہ دیر چھپ نہیں سکتی کہ ان کے پارٹی چھوڑنے کی وجوعات کیا ہیں کیونکہ بہت لوگ روتے ہوئے پارٹی کے ساتھ سیاست بھی چھوڑ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنماوں کو غدارکہنا شروع کردیاگیا، راولپنڈی کی سڑکوں پر بینرز اور پوسٹرز لگ گئے ، بڑے بڑے بینرز پر تصاویر کے ساتھ ایسے شوز کے نشان چسپاں کئے گئے جیسے پاکستانی کچھ عرصہ قبل فرانس کے صدر کی تصویر کے ساتھ حشر کرتے تھے، 9 مئی کے حملوں کا کوئی دفاع نہیں کرسکتا، ان کی مذمت ضروری ہے مگر یہ سوچنا بھی تو بنتا ہے کہ یہ اسی مٹی کے لوگ ہیں جو کسی فیصلے کے خلاف طیش میں آکر غلط کام کربیٹھے۔
غدار اور محب وطن کی تفریق نے قوم کو مزید الجھا کررکھ دیا، عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے رہنما غدار ہیں مگر جو اڈیالہ جیل سے سیدھا نیشنل پریس کلب کی کرسی تک پہنچ جائے، ایک صفحہ پڑھ کر پی ٹی آئی چھوڑ دے وہ غدار کی لسٹ سے آوٹ اور جو 9 مئی کے واقعات کی مذمت بھی کرے، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی حمایت بھی کرے مگر پی ٹی آئی نہ چھوڑے تو وہ غدار؟
لیڈرز، وطن اور اپنے اداروں کے خلاف عذت وتکریم انسان کے اندر کا وہ جذبہ ہے جسے کسی پیمانے پر پرکھا نہیں جاسکتا۔۔کبھی کبھی بیٹے باپ سے لڑ کر گھر چھوڑ جاتے ہیں ۔ والدین سے ناراض ہو کر الگ ہو جاتےہیں مگر ان کا رشتہ تو ختم نہیں ہوتا، ہم تو آج بھی اس بات کے حامی ہیں کہ پاکستان اور اس کے اداروں کو گالی دینے والوں کو سخت سزا ملے مگر ضروری ہے اس اقدام کے گواہ اور شہادت بھی موجود ہو۔۔ پسند نہ پسند کی بات پر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں رائیگاں جاتی ہیں کیونکہ اللہ پاک نے ہر ایک کو اچھا برا سوچنے کی اہلیت دے رکھی ہے۔
وطن عزیز میں کوئی ایک خرابی نہیں ہے جس کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے بلکہ آئین کہتا ہے90 دن میں انتخابات ہوں،342 کے ایوان میں بیٹھے 42 لوگ قرارداد پیش کرکے سپریم کورٹ کا فیصلہ رد کردیتے ہیں اوردعوی کرتے ہیں پارلیمنٹ سپریم ہے، 14 ارکان ایوان میں بیٹھے ہوتے ہیں باہمی رضا مندی سے اجلاس چلتا ہے کوئی کورم کی نشاندہی نہیں کرتا۔ اور نعرہ مستانہ مقننہ بالادست ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کافیصلہ اس ملک کا چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم نہیں مانتا پھر کہاں بچتےہیں ضابطے؟
حکومت اور اپوزیشن کے سیاستدانوں نے مل کرپاکسان کے ان عوام کو تقسیم کردیا ، نفرت کے بیج بودیئے جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر پارہے ہیں۔معشیت تباہ حال ہے، روزگار ملتا نہیں، مہنگائی نے ملکی تاریخ کے ریکارڈ توڑ دیئے مگر نا سمجھ لوگ اپنے حق کےلئے بولنے کی بجائے سیاستدانوں کی لڑائیاں لڑنے میں مصروف ہیں اور مزید تباہ ہورہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے جہاں 13 جماعتیں مل کر بھی ملک کو نہیں چلا پارہیں ، دن بدن حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں وہاں جہانگیر ترین، علیم خان ایسے نئے بت کھڑے کردیئے گئے تو وہ کیا کرلیں گے؟ سارے مسائل کاحل آزادانہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کیوں باربار کعزور گھوڑوں پہ انحصار کرکے خود تنقید کی زد میں آتی ہے۔ عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔
جب ہم 27 فروری کا تصور کرتے ہیں جب دو بھارتی طیارے تباہ ہوگئے تھے، بھارتی پائیلٹ ابھی نندن پکڑا گیا تھا۔۔ جب کارگل وار میں بھارت کاایک اور پائیلٹ ناچی کیتا پاک فوج کے جوانوں نے دبوچ لیا تھا اور اسے ساتھ لے آئے تھے ،شہید کرنل شیر کی بہادری کی گواہی خود دشمن ملک کا افسر دیتا ہے تو قوم کا خون گرمانے کےلئے یہ معرکے کافی ہیں۔ فوج کی پیشہ وارانہ سوچ اور سرگرمیوں سے یہ قوم عشق کرتی ہے۔9مئی ایک برا دن تھا۔
Comments are closed.