ازخود نوٹس کیس، سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل کیسز واپس لینے سے روک دیا

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)ازخود نوٹس کیس، سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل کیسز واپس لینے سے روک دیا ہے اور استفسار کیا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے کیسز میں تفتیشی افسران کے تقرر و تبادلے کس بنیاد پر کیے گئے؟

جمعرات کو سپریم کورٹ نے تحقیقاتی اداروں میں حکومتی مداخلت سے متعلق کیس کی سماعت میں واضح سوال اٹھایا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے کیسز میں تفتیشی افسران کے تقرر و تبادلے کس بنیاد پر کیے گئے؟

تفتیش میں مبینہ حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب لاہور اور ایف آئی اے سے کئی افسران کا تبادلہ کیا گیا، ہائی پروفائل کیسز میں تبادلے اور تقرریوں پر تشویش ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس طرح کیوں ہو رہا ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب، آپ کے آنے کا شکریہ، کیا آپ نے ازخود نوٹس کیس کی پیپر بک پڑھی ہے؟

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو سوموٹو نوٹس کی پیپر بک پڑھنے کے لیے دئیے گئے ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ پیپر بک کا پیراگراف 2 اور3 پڑھ لیں.

انھیں بتایا کہ ایف آئی اے لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹرکو تبدیل کردیا گیا ہے، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب اور سیکریٹری داخلہ کو نوٹس جاری کیے ہیں۔

عدالت نے حکم دیا ہے کہ ہائی پروفائل مقدمات میں پراسیکیوشن، تحقیقات برانچ میں تاحکم ثانی ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ واپس لینے سے روک دیا.جج کے نوٹ کے مطابق ڈی جی ایف آئی اے اور ڈاکٹر رضوان کو بھی ہٹایا گیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے مطابق ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو عدالت میں پیش ہونے سے منع کیا، پر اسیکیوشن میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، ثناء اللہ عباسی اچھی شہرت کے افسر ہیں۔

چیف جسٹس بندیال کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے افسر ڈاکٹر رضوان کو دل کا دورہ پڑا، ان معاملات پر تشویش ہے، ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ رہے ہیں قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالتی کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا شرمندہ کرنے کے لیے نہیں، سماعت قانون کی حکمرانی کے لیے ہے۔وضاحت کریں مقدمات میں مداخلت کیوں ہو رہی ہے، ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے مداخلت پر بیان بھی دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏کئی ہزار لوگ نئی ای سی ایل پالیسی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق کل 4663 میں سے 3000 لوگ مستفید ہوں گے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ‏پراسیکیوشن برانچ اور پراسیکیوشن کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، پراسیکیوٹر کو ہٹانے کی وجہ جاننا چاہتے ہیں. 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز افسران کو تبدیل کرنے اور ہٹانے پر سپریم کورٹ کے ایک جج کے نوٹ پر ازخود نوٹس لیا تھا۔کرمنل جسٹس سسٹم کی پراسیکیوشن برانچ میں حکومتی مداخلت کے معاملے پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ از خود نوٹس کی سماعت کی ۔

جج کے نوٹ میں کہا گیا کہ کریمنلز معاملات میں حکومتی عہدوں پر موجود لوگ مداخلت کررہے ہیں، ایسے اقدامات اور میڈیا رپورٹس کریمنلز جسٹس سسٹم کی اہمیت کم کرنے کی کوشش ہے۔

سپریم کورٹ کے جج نے اپنے نوٹ میں کہا کہ خدشہ ہے اس مداخلت سے پراسیکیوشن کے معاملات پر اثرانداز ہوا جاسکتا ہے، ٹمپرنگ اور شہادتیں غائب ہونے کا خدشہ ہے۔

سپریم کورٹ کے جج نے نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ اس سے ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی اور عوام کا اعتماد مجروح ہورہا ہے۔
جج نے نوٹ میں لکھا کہ پراسیکیوشن برانچ کے افسران کے تبادلے اور تفتیش سے ہٹانے کے اقدامات کی خبریں ہیں، ایسے حکومتی اقدامات سے عوام کا فوجداری نظام عدل پر اعتماد مجروح ہوگا۔

جج نے نوٹ میں لکھا کہ موجودہ حکومت کے اعلیٰ حکام کی جانب سے پراسیکیوشن معاملات میں مداخلت کا تاثر ہے، پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ کی آزادی حکومتی شخصیات کے خلاف تحقیقات میں متاثر ہورہی ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کی سماعت 19مئی دن ایک بجے کے لیے مقرر کردی۔

Comments are closed.