انتخابی نشان… وبال جان

54 / 100
حجاب خان

کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کردئیے گئے جس سے بہت سے امیدوار تو مطمئن ہیں کہ انکو مرضی کا نشان ملا مگر کئی امیدواروں کو اس پر شدید اعتراض بھی ہے.

دیکھاجاۓ توانتخابی نشان صرف ایک علامتی نشان ہوتا ہے جو الیکشن کے دن ٹھپہ لگانے میں آسانی کیلئے امیدوار کے نام کے آگے پرنٹ کیا جاتا ہے لیکن ایسے علاقوں میں جہاں اکثریت غیرتعلیم یافتہ ہو وہاں نشان کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

اس کو لوگ کفر اسلام ،عزت ، بے عزتی اور غیرت کا مسلہ بنا دیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ اچھے اچھے نشانات سیاسی جماعتوں کیلئے مخصوص ہوتے ہیں جبکہ ان سے بچ جانے والے نشانات آزاد امیدواروں کو الاٹ ہوتے ہیں۔

کئی امیدواروں کے اعتراضات درست بھی ہوتے ہیں کہ اچھے نشانات ہونے کے باوجود قابل اعتراض نشان الاٹ کردیا جاتا ہے جیسے کسی کو ہری مرچ، کسی کو بوتل کسی کو سانپ،چمگادڑ،کیلے کا نشان الاٹ ہو تو بے چارہ کیا کرے۔

ایک امیدوار نے شکایت کی کہ مجھے بکری کا نشان دیا گیا اب میں لوگوں سے کیا کہوں کہ بکری کو ووٹ دو مجھے بکری بنا دیا گیا۔سابقہ الیکشن میں ایک امیدوار کو بالٹی کا نشان ملا الیکشن ہارنے کے بعد بھی اب تک اسکے نام کے ساتھ بالٹی کا لاحقہ لگا ہوا ہے۔

کیلے کا نشان والا.بھی ساری زندگی کیلے کیلے کے طعنے سن کر تنگ آچکا ہوتا ہے۔سانپ کے نشان والا تو الیکشن سے ہی دستبردار ہوگیا کہ میں نہیں کہہ سکتا لوگوں سے کہ سانپ کو ووٹ دو۔بوتل کا نشان والے کو لوگ بوتل شاہ ،بوتل خان یا سردار بوتل کے نام سے پکارنے لگ جاتے ہیں۔

مولی گاجر کا نشان والا بھی شرمسار ہوتا ہے۔ سابقہ انتخابات میں مانسہرہ میں ایک خاتون ریٹرننگ افسر نے ایک امیدوار کو کیلے کا نشان الاٹ کیا تو امیدوار نے خاتون جج سے جرح کی کہ مجھے کوئی اور نشان دیا جائے کیلا نشان اچھا نہیں ہوتا اسے رہنے دیں.

؛ خاتون جج نے کہا کہ کیوں کیلا تو اچھا نشان ہے۔امیدوار نے کہا کیلا آپ کیلئے اچھا ہوگا ہمارے لئے بڑا مسلہ پیدا کرتا ہے۔ایک اور امیدوار کو ماچس کی تیلی کا نشان ملا تو اس نے اعتراض کیا کہ دنیا میں اور چیزیں ختم ہوگئی ہیں جو میرے لئے ماچس کی تیلی رہ گئی ہے۔

میں نے کونسا دنیا کو آگ لگانی ہے۔اب کسی کو چڑیا تو کسی کو کوا یا چمگادڑ یا طوطا اب ان نشانات میں عام ووٹرز فرق کس طرح کریگا۔چھپائی میں بھی نشان بہت چھوٹا رہ جاتا ہے جس سے ووٹر کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے کہ کس پر ٹھپہ لگاوں۔

ایک خاتون کو بھینس کا نشان ملاتو وہ ریٹرننگ افسر سے الجھ پڑی کہ بھینس ہوگی تیری فلاں۔۔مجھ جیسی سمارٹ خاتون کو بھینس بنا دیا۔اب یہ بھی توسراسر ناانصافی ہے کہ چارپائی کا نشان بھی الاٹ ہوتا ہے تو بیڈ کا بھی اگر اتفاق سے یہ دونوں نشان ایک ہی حلقے میں ہوئے تو ووٹر کتناپریشان ہوگا۔

کسی کو ایک بکری تو کسی کو 2 بکریوں والے نشان بھی ملے ہیں۔ویسے انتخابی نشان کو جے یوآئی والے بہت غلط استعمال کرتے ہیں۔ کتاب ان کا انتخابی نشان ہے لیکن ان کے امیدوار جہاں جاتے ہیں قرآن پاک ساتھ لے جاتے ہیں کہ اس کو ووٹ دو اس سے انکار کروگے تو کافر۔

ماضی میں مشرف دور میں الیکشن کمیشن نے ان کو نشان کتاب ہی الاٹ کیا لیکن کھلی کتاب کا جس پر” ا ب پ ” درج تھا مقصدیہ تھا کہ یہ عام کتاب ہے قران مجید نہیں تو جے یو آئی نے ہنگامہ برہا کردیا۔

احتجاج کیا جس پر الیکشن کمیشن نے کتاب کو بند ہی رہنے دیا۔تو تمام امیدوار نشان کو نشان ہی رہنے دیں کفر اسلام اور غیرت انا کا مسلہ نہ بنائیں۔

Comments are closed.