کھوتا ریٹرن
جاوید چوہدری
ایگی یو (Ejiao) پروٹین کی ایک قدیم قسم ہے‘ یہ سخت جیل(Gel) کی طرح ہوتی ہے‘ گرم پانی میں تحلیل ہو سکتی ہے اور شراب اور کھانوں میں ڈال کر کھائی جاتی ہے‘ یہ خون کی کمی کے شکار لوگوں کے لیے بلڈ ٹانک ہوتی ہے‘ لوگ اس کو کیپسول میں بھر کر بھی کھاتے ہیں اور پاؤڈر ملک کی طرح گرم پانی میں گھول کر بھی پیتے ہیں‘ یہ جلد اور خوبصورتی کے لیے بھی بہت اچھی ہوتی ہے اور یہ فیس کریمز‘ فیس پاؤڈرز اور میک اپ کی مصنوعات میں بھی استعمال ہوتی ہے‘ یہ معاملہ یہاں تک ٹھیک تھا لیکن اصل ایشو گدھے ہیں‘ ایگی یو کا ماخذ گدھوں کی کھالیں ہیں‘ یہ جیل(Gel) سب سے زیادہ گدھوں کی کھال میں پائی جاتی ہے‘ چین اسے دھڑا دھڑا مارکیٹ کرتا ہے‘ ایگی یو کا کمرشل استعمال 2011 ء میں شروع ہوا‘ چین کے ماہرین نے جب اسے کاسمیٹک میں استعمال کرنا شروع کیاتوپوری دنیا میں گدھوں پر مشکل وقت آ گیا‘ چین میں سن 2000ء میں ایک کروڑ 10 لاکھ گدھے تھے۔
ایگی یو کے جدید استعمال کے بعد یہ تعداد کم ہو کر 40 لاکھ رہ گئی‘ چین اس کے بعد دنیا میں گدھوں کی کھال کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن گیا‘ یہ یوگینڈا‘ تنزانیہ‘ بوٹسوانہ‘ برکینافاسو‘ مالی اور سینی گال سے ہر سال گدھوں کی 18 لاکھ کھالیں امپورٹ کرتا ہے جب کہ ڈیمانڈ ایک کروڑ کھالیں ہیںیوں چین کو ہر سال 82 لاکھ مزید کھالیں چاہئیں‘ ہم چین کے ہمسائے ہیں چنانچہ ہمارے گدھے پچھلے دس برس سے چین کی زد میں ہیں‘ پاکستان میں 2011ء تک ہزار روپے میں گدھے کی کھال مل جاتی تھی لیکن جب چین نے کھالیں خریدنا شروع کیں تو قیمت تیس ہزار روپے تک پہنچ گئی‘ پاکستانیوں کو یہ کاروبار منافع بخش محسوس ہوا چنانچہ یہ لوگ گدھا خریدتے‘ اس کاگلہ کاٹتے‘ کھال چینی سوداگروں کو دے دیتے اور گدھے کا گوشت مٹن میں مکس کر کے پولیس ‘ پاکستان کے سرکاری میسوں‘ وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے کچن کو سپلائی کر دیتے‘ گدھے کا گوشت ریستورانوں میں بھی بیچ دیا جاتا یوں کھال اور گوشت دونوں بک جاتے اور تاجر دوگنا منافع کما لیتے‘ چینی تاجر کھال بیجنگ لے جاتے‘ اس سے ایگی یو نکالتے‘ ایگی یو 388 ڈالر فی کلو فروخت ہوتی ہے اور ایک کھال سے عموماً پانچ کلو گرام جیل نکل آتی ہے۔
یہ جیل نکالنے کے بعد کھال فرنیچر بنانے والوں کو بیچ دیتے یوں گدھوں کی کھال فرنیچر‘ ایگی یو اور گدھا فروش تینوں کے رزق کا ذریعہ بن گئی‘ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر 2016ء میں پتہ چلا صرف گدھے کی کھال نہیں بلکہ پورا گدھا ہی کارآمد ہے‘ یہ کاسمیٹک میں بھی استعمال ہو سکتا ہے‘ اس کا گوشت بھی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے اور گدھی کا دودھ انسان کی سانس کی نالی کھول دیتا ہے‘ یہ کالی اور عام کھانسی میں انتہائی کارآمد ہے‘ اس ریسرچ کے بعد چین میں سالم گدھے کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو گیا‘ چینی تاجر ڈالروں کے بریف کیس بھر کر افریقہ پہنچ گئے‘ ڈیمانڈ اور سپلائی کا ایشو بنا اور افریقہ میں گدھوں کا بحران پیدا ہو گیا چنانچہ چھ افریقی ملکوں نے گدھوں اور گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ بند کر دی‘ افریقہ سے جواب ملنے کے بعد پاکستان گدھوں کے معاملے میں چین کی واحد آس بن گیا‘ چینی تاجروں نے پاکستان کا رخ کر لیا‘ ہماری موجودہ حکومت معاشی لحاظ سے جینئس ہے چنانچہ اس سنہری موقعے کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
خیبرپختونخواہ باقی صوبوں سے سبقت لے گیا اور اس نے چین کی ضرورت پوری کرنے کے لیے صوبے میں ڈونکی فارمنگ کا پراجیکٹ لانچ کر دیا‘ کے پی کے حکومت کے لائیوسٹاک ڈیپارٹمنٹ نے 31 جنوری کواعلان کر دیا‘صوبائی حکومت چین میں گدھوں کی مانگ پوری کرنے کے لیے ایک ارب روپے سے ڈونکی ڈویلپمنٹ منصوبہ شروع کر ے گی‘ کے پی کے گورنمنٹ 17 اور 18 فروری کو اپنی ڈونکی پاور کا مظاہرہ کرنے کے لیے چین میں روڈ شو بھی کرے گی‘ ہم اس شو میں چین میں اپنے گدھوں کی طاقت اور خوبصورتی شو کریں گے‘ حکومت نے معاشی پوٹینشل دیکھتے ہوئے گدھوں کی افزائش کے لیے خصوصی انتظامات بھی شروع کر دیے ہیں‘ گدھوں کے قد کاٹھ اور خوبصورتی کے لیے جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کی جائے گی‘ خصوصی شیلٹر بھی بنائے جائیں گے‘ بلڈنگ بھی اور گدھوں کی نگہداشت کے لیے ملازمین کے کمپاؤنڈز بھی‘ یہ تمام بلڈنگز سولر انرجی پر چلیں گی اورگدھوں کی نسل میں اضافے کے لیے ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل اسٹاف بھی رکھا جائے گا۔
میں نے جب کے پی کے حکومت کے لائیوسٹاک ڈیپارٹمنٹ کا یہ منصوبہ پڑھا تو آپ یقین کیجیے مجھے وزیراعلیٰ محمود خان کے وژن پر رشک بھی آیا اور مجھے پہلی مرتبہ اپنے پنجابی ہونے پر افسوس بھی ہوا‘ میں ہمیشہ گدھوں پر اپنا حق سمجھتا تھا‘ میرا خیال تھا گدھے اور پنجابی دونوں لازم و ملزوم ہیں‘ جتنا ہم گدھوں کو سمجھتے ہیں اور جتنا گدھے ہمیں سمجھتے ہیں ملک کے باقی صوبے اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے‘ آپ آج بھی بلوچستان‘ سندھ اور کے پی کے سے پنجاب میں داخل ہوں تو آپ کو ہر دس قدم بعد کوئی نہ کوئی گدھا ضرور نظر آئے گا‘ آپ کو بالخصوص لاہور گدھوں کا مرکز ملے گا‘ آپ کسی دن لاہور چلے جائیں‘ آپ کی ہر موڑ پر گدھے سے ملاقات ہو جائے گی‘ یہ ایک درویش مخلوق ہے‘ یہ آپ کو مال روڈ‘ فائیو اسٹار ہوٹلوں حتیٰ کہ پنجاب اسمبلی کے باہر بھی مل جاتی ہے۔
پرانے پاکستان میں گورنر ہاؤس کے اندر بھی گدھوں کا طویلہ ہوتا تھا‘ میں نے خود اپنی آنکھوں سے لطیف کھوسہ کے دور میں گورنر ہاؤس میں گدھے چرتے دیکھے‘ اب چوہدری سرور گورنر ہیں‘ یہ گدھوں سے الرجک ہیں‘ میں چوہدری سرور کو 1997ء سے جانتا ہوں‘ میں 22برس کی اس شناسائی کی بنیاد پر پیشن گوئی کر سکتا ہوں یہ اس بار بھی زیادہ دنوں تک گورنر ہاؤس میں نہیں ٹک سکیں گے‘ یہ جب 2013ء میں گورنر بنے تھے تو یہ چار ماہ میں اکتا گئے تھے‘ میں نے ان سے وجہ پوچھی تھی تو انھوں نے ہنس کر کہا تھا‘ میں کھوتوں کے ساتھ نہیں چل سکتا‘ میرا خیال ہے یہ اس بار بھی نہیںچل سکیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ کھوتا پنجاب کی ثقافت بھی ہے اور مزاج بھی اور ہم پنجابی مر جائیں گے لیکن اپنے مزاج اور ثقافت سے کھوتا نہیں نکلنے دیں گے اور چوہدری صاحب ہمارے مزاج اور ثقافت دونوں سے الرجک ہیں چنانچہ یہ مزید کتنی دیر نکال لیں گے؟ یہ ضمنی تذکرہ تھا ہم گدھوں کی طرف واپس آتے ہیں۔
گدھے بھینس کے بعد ہم پنجابیوں کی سب سے بڑی کمزوری ہیں‘ آپ میانوالی اور لیہ سے ڈی جی خان تک ریسرچ کر لیں‘ آپ کو گدھا آدھے پنجاب کی سروائیول محسوس ہو گا‘ کھوتا ہمارے محاوروں تک میں موجود ہے‘ مثلاً ’’میںنے کسی کی کھوتی کو ہاتھ لگایا ہے‘‘ یا پھر ’’ڈگہ کھوتی توں تے غصہ کمہار تے‘‘یہ بھی حقیقت ہے ہم پنجابی گدھے سے زیادہ گدھی پر کنسرن ہوتے ہیں‘ یہ کیونکہ بچے دیتی ہیں چنانچہ پنجاب کے دیہات میں لوگ اپنی گدھی کی عزیز ترین چیز کی طرح حفاظت کرتے ہیں‘ یہ رات کو گدھیوں کو تین تین تالوں میں باندھ کر رکھتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں لوگ انھیں ’’کھول‘‘ کر لے جائیں گے یوں ان کا کردار خراب ہو جائے گا‘ نوجوان ہر قسم کی ڈرائیونگ بھی گدھیوں پر سیکھتے ہیں تاہم شادی کے بعد یہ فریضہ بھینسیں ادا کرتی ہیں لہٰذا پنجاب میں قدیم دور سے بھینسیں جہیز میں دی جاتی ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں زندگی گزارنے کے لیے ایک بھینس اور ایک کھوتی کافی ہوتی ہے چنانچہ ہم گدھوں کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔
ہماری حکومتیں جب بھی گدھوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتی ہیں تو ہم جذباتی ہو جاتے ہیں‘ جنوری میں بھی ہمارے ساتھ یہی ہوا‘ ہم نے جب سنا کے پی کے حکومت ڈونکی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ شروع کر رہی ہے تو ہماری پنجابی غیرت جاگ گئی ‘میں بطور پنجابی وفاقی حکومت کے سامنے شدید احتجاج کر رہا ہوں‘ گدھوں پر صرف اور صرف پنجاب کا حق ہے اور وفاقی حکومت کو پنجاب کو اعتماد میں لیے بغیر گدھوں میں کوئی اینی شیٹو نہیں لیناچاہیے تھا‘ میری وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی درخواست ہے آپ نے پنجابیوں کی عزت خاک میں ملا دی‘ آپ کو فوری طور پر یہ ایشو سی سی آئی میں اٹھانا چاہیے تھا‘ گدھوں کا پہلا فارم ہاؤس ہر لحاظ سے پنجاب میں بننا چاہیے تھا‘ یہ منصوبہ کے پی کے کو دینا اٹھارہویں ترمیم کی توہین ہے۔
یہ پنجاب جیسے بڑے صوبے کی حق تلفی بھی ہے اور عمران خان نے یہ حق تلفی کر کے اقرباء پروری کا ثبوت دیا‘ قوم دیکھ رہی ہے وزیراعظم کس طرح ہر معاملے میں کے پی کے کو نواز رہے ہیں‘ وزیراعظم نے پہلے پنجاب کو اسد عمر سے محروم کر کے زیادتی کی اور یہ اب ڈونکی پراجیکٹ ’’کے پی کے‘‘ کو دے کر ملک کے سب سے بڑے صوبے کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں‘ پنجاب یہ معاشی زیادتی ہرگز ہرگز برداشت نہیں کرے گا‘ گدھوں کے تمام رائٹس پنجاب کے پاس ہیں اور ہم کسی قیمت پر کسی شخص کو یہ حقوق نہیںلینے دیں گے خواہ ہمیں جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑ جائے اور ایک اور بات کے پی کے گدھوں کے معاملے میں پنجاب کا کبھی مقابلہ نہیں کر سکے گا‘ آپ جتنے چاہے فارم بنا لیں‘ آپ کے گدھے پنجابی گدھوں کی گرد تک نہیں پہنچ سکیں گے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ ایک بار پنجاب آ کر دیکھ لیں‘ ہم گدھوں میں اس وقت پوری دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا بھی اس وقت ہمارے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا‘ یقین نہ آئے تو آپ ہمارے وزیراعلیٰ سے پوچھ لیں۔
(بشکریہ ایکسپر یس)
Comments are closed.