خواتین صحافیوں کے خلاف توہین آمیز مہم
ماریہ میمن
پاکستان میں خواتین صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سلسلہ اب واضح طور پر شائستگی کی ہر حد اور تمام اخلاقی اصولوں کو پار کرتا جا رہا ہے۔
خواتین صحافیوں کی جانب سے جاری ہونے والی دستخطی دستاویز میں حکومت، سیاسی جماعتوں، ان کے سپورٹرز اور سوشل میڈیا ونگز سے وابستہ افراد نے خواتین صحافیوں کے خلاف چلائی جانے والی مہم پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
خواتین صحافیوں کی جانب سے جاری مشترکہ دستخطی دستاویز کے متن میں حکومت اور سیاسی جماعتوں سے مطالبات کیے گئے ہیں کہ وہ فوری طور پر اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کے لیے ضابطہ اخلاق تیار کریں اور اس پر عمل کریں۔
متن کے مطابق ’گھناؤنے حملے ہمارے کام، ذہنی صحت اور سلامتی کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ حملے خواتین پر محض گالم گلوچ، بدنام کرنے اور جبر تک محدود نہیں۔ ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہمارے چند ساتھی 12 اگست 2020 کو جو کچھ منظر عام پر لائے اس کے ذریعے ہمیں میڈیا میں خواتین صحافیوں پر گزرنے والے صدمے کی شدت اور صورت حال کی سنگینی کو سامنے لانے میں مدد ملی ہے۔
مشترکہ دستخطی دستاویز کے مطابق ’میڈیا سے وابستہ خواتین کو اب جس طرح کی ٹرولنگ اور بے ہودگی کا تجربہ ہو رہا ہے اس کا قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں، حکومت اور سیاسی جماعتیں نوٹس نہیں لے رہیں نہ ہی کوئی ایکشن ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ واضح طور پر شائستگی کی ہر حد اور تمام اخلاقی اصولوں کو پار کرتا جا رہا ہے۔
’ان حملوں کا ہدف خاص طور پر میڈیا سے وابستہ خواتین ہیں، جن کو اکثر ایسے معاملات پر نشانہ بنایا جاتا ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے تنقید کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ اس میں حکومت یا سیاسی جماعتوں سے اختلاف رکھنے والے صحافی بھی شامل ہیں۔
سرکاری حکام اور سیاست دانوں کی جانب سے صحافیوں پر بے بنیاد الزامات عائد کیے جاتے ہیں، جن میں جھوٹی خبروں کا پھیلانا، سیاسی ایجنڈے کی تکمیل یا کسی سیاسی جماعت سے پیسے لینے جیسے الزامات شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح کے الزامات صحافیوں کو نشانہ بنانے والی گندی سوشل میڈیا مہم کا باعث بنتے ہیں۔
متن کے مطابق ’اس صورت حال میں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے ٹیکس دہندگان کی رقم سے چلنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سوشل میڈیا سیل کا سرکاری مینڈیٹ کیا ہے؟ اکثر ایسا لگتا ہے جیسے سوشل میڈیا سیل کا مینڈیٹ صرف صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو بغیر کسی ثبوت کے بدنام کرنا ہے۔
’یہ مسلسل حملے صحافت پرعوام کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ توہین اور ہراساں کیے جانے کے خوف سے اب ہم خواتین صحافیوں کے لیے سوشل میڈیا پر فعال رہنا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو آزادانہ طور پر استعمال کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہمارا ذاتی وقار نہایت غلیظ قسم کی توہین آمیز سوشل میڈیا مہم کے ذریعے پامال کیا جا رہا ہے۔
بیان میں تمام سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کے کاموں اور مینڈیٹ سے متعلق شفافیت سامنے لائیں۔
1:الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تمام سیاسی جماعتوں سے ان کے سوشل میڈیا سیلز کے کام کی تفصیلات پیش کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
2:ہم حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کے ضابطہ اخلاق تیار کریں اور اس پر عمل کروائیں۔
3:ان نیٹ ورکس کی چھان بین کریں جو میڈیا میں خواتین کے خلاف مربوط حملوں، ہیش ٹیگ مہم اور مکروہ قسم کی کمپین کو شروع کرنے اور چلانے میں نمایاں طور پر مصروف عمل رہے ہیں۔
4:متعلقہ اداروں جیسے ایف آئی اے کے لیے صنفی حساسیت کے حوالے سے تربیتی سیشنز کا انعقاد کریں اور الیکٹرانک جرائم روک تھام ایکٹ کے موثر نفاذ کو یقینی بنائیں، خاص طور پر کسی کے شخصی وقار کے خلاف جرم کے حوالے سے سیکشن 20 کا نفاذ۔
5:ہم انسانی حقوق سے متعلق سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس کا نوٹس لیں اور تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر عملدرامد کو یقینی بنائیں۔
6: بیان کے آخری میں کہا گیا ہے کہ آخر میں ہم حکومت سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس بیان کو سوشل میڈیا کے لیے مزید ضابطے اور قوانین بنانے کے لیے استعمال نہ کرے اور اس معاملے سے سوشل میڈٰیا کے ذمہ دارانہ استعمال کے ضابطہ اخلاق کو سامنے رکھ کر ہی نمٹے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران جماعت تحریک انصاف پر ترقی پسند، مثبت اور سنجیدہ سیاسی گفتگو کا ماحول بنانے کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اسے سب کے لیے مثال بننا چاہیے۔ ہم سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جن کے ممبران قانون سازی کے لیے منتخب ہوتے ہیں وہ مہذب سوشل میڈیا گفتگو کی حوصلہ افزائی کریں اور اسے یقینی بنائیں۔
(بشکریہ اردو نیوز)
Comments are closed.