اصل مقدمہ اور ضمنیاں
شمشاد مانگٹ
پاکستان کے انصافی نظام میں”ضمنیاں“ بہت اہمیت رکھتی ہیں۔قتل،اقدام قتل یا پھر لڑائی جھگڑے کی واردات ہو غرضیکہ ہر مقدمے کے اندراج کیلئے پہلے مدعی کو جیب خالی کرنی پڑتی ہے اور پھر ملزمان اپنی مرضی کی ضمنیاں لکھوا کر سرخرو ہوجاتے ہیں۔
سرعام قتل ہونے کے کئے واقعات ایسے ہیں جن میں سینکڑوں لوگوں نے قاتل کو مقتول پر گولیاں برساتے دیکھا اور پھر یہ منظر بھی دیکھا کہ پولیس جائے وقوعہ پر ایسے پہنچی جیسے یہ قتل کی آخری واردات تھی اور اس کے بعد پولیس روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہر قاتل کو ایسا سبق سکھائے گی کہ قاتلوں کی تمام”انجمنیں“ قتل وغارت چھوڑ کر محنت مزدوری پر آمادہ ہوجائیں گی۔
لیکن مقتول کے پوسٹ مارٹم سے لیکر ایف آئی آر کے اندراج تک ایس ایچ او کے حکم پر تفتیشی افسران مدعیان کو من پسند لوگوں کے نام ایف آئی آر میں ڈالنے کیلئے اپنی”محنت مزدوری“ سے غیر محسوس انداز میں باور کرادیتے ہیں۔اس کے بعد ملزمان اپنے وکلاء کی ٹیم سے ملکر ضمنیاں تیار کروالیتے ہیں اور پولیس کو منہ مانگے دام مل جاتے ہیں۔
کسی مقدمہ کی ضمنی ہو یا پھر ضمنی الیکشن ہوں دونوں ہی خوفناک اور خطرناک ردعمل کے حامل ہوتے ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے ہی دوماہ میں جو”گل“ کھلائے ہیں اس پر عوام نے تحریک انصاف کیخلاف”ضمنی“ لکھ کر اپنا غصہ اتار دیا ہے۔
اسلام آباد کے ضمنی الیکشن دونوں فریقوں کے یونین کونسل کے چیئرمینوں کے درمیان ہوئے،علی نواز اعوان تقریباً23ہزار ووٹوں کے مارجن سے یہ معرکہ سرکر پائے ہیں۔مسلم لیگ(ن) کو یہ الیکشن ہارنے کا اتنا ہی یقین تھا جتنا کہ ضلع اٹک میں ملک سہیل کمٹریال کے جیتنے کا یقین تھا۔
لہٰذا اس حلقے سے عام انتخابات میں عمران خان سے الیکشن ہارنے والے شاہد خاقان عباسی نے لاہور جاکر حمزہ شہباز کے حلقہ میں”سیاسی پناہ“ لی اور لاہور کے عوام نے انہیں گود لیکر اسمبلی تک پہنچا دیا۔
شاہد خاقان عباسی نے لاہور سے کامیابی کے بعد اپنی فاتح تقریر میں کہا کہ میں لاہور سٹائل اپنانے کی کوشش کروں گا۔اس سے مراد ممکن ہے کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ لاہور کے عوام میں گھل مل جانے کیلئے وہ”کھوتا کڑاہی“ کی عادت ڈالنے کی کوشش کریں گے۔بہرحال مری اور اسلام آباد کے عوام نے شاہد خاقان عباسی کو عام انتخابات میں عوام کو نظر انداز کرنے کا”ملزم“ قرار دیدیا تھا-
لیکن”ضمنیوں“ میں لاہور کے عوام نے انہیں بے گناہ قرار دیدیا ہے۔ضمنی الیکشن میں راولپنڈی میں شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق بمشکل چند سو ووٹوں سے کامیاب قرار ہوپائے ہیں انکے مد مقابل سجاد خان یقیناً دوبارہ گنتی کا چانس لیں گے اور”ضمنی گنتی“ میں پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔
راولپنڈی کی تحصیل ٹیکسلا کے عوام نے عام انتخابات کے نتائج کی تصدیق کردی ہے اور وفاقی وزیر غلام سرور خان کی چھوڑی ہوئی نشست پھر انکے ہی گھر چلی گئی ہے۔البتہ اٹک شہر میں مسلم لیگ(ن) نے بازی پلٹ دی ہے۔اٹک کے ضمنی الیکشن کو دیکھا جائے تو وہاں پر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ میجر(ر) طاہر صادق ہی اصل فرق ہے۔میجر(ر) طاہر صادق نے ”جنرل“ الیکشن میں اس نشست کو ایک لاکھ63ہزار ووٹ لیکر جیتا تھا۔
لیکن پی ٹی آئی نے میجر طاہر صادق جیسے سیاسی ہیرے کی قدر نہیں کی اور ضمنی الیکشن میں سہیل کمٹریال کے ایک لاکھ25ہزار ووٹ بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو ”میجر“ نقصان طاہر صادق کو وفاقی کابینہ میں شامل نہ کرکے ہوا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار دعویٰ کر رہے ہیں کہ میجر طاہرصادق اور پی ٹی آئی میں جلد ہی علیحدگی ہوجائے گی کیونکہ میجرطاہر صادق عوامی سیاست کے علمبردار ہیں اور پارٹی انکی کمزوری نہیں ہے جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت پر یہ الزام تقریباً سچ ثابت ہونے لگا ہے کہ وہ مردم شناس نہیں ہے جبکہ”خاتون شناسی“ میں بھی وہ تیسرا”ضمنی نکاح“ کرچکے ہیں۔
لاہور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے131 میں خواجہ سعد رفیق نے نیب کا ”تقریباً“ مفرور ملزم ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو لوہے کے چنے چبوا دئیے ہیں۔خواجہ سعد رفیق اور انکے بھائی خواجہ سلمان رفیق ووٹ مانگنے سے زیادہ حفاظتی ضمانت کیلئے بھاگ دوڑ کرتے ہوئے نظر آئے-
پی ٹی آئی کے ہمایوں اختر نے کھلم کھلا الیکشن لڑا اور ہار گئے۔عام انتخابات میں عمران خان نے یہ نشست ایک ہزار ووٹوں سے جیتی تھی،لیکن خواجہ سعد رفیق نے دوبارہ اور پھر سہ بارہ گنتی کی درخواست دی،اسی دوران عمران خان نے یہ سیٹ چھوڑنے کا اعلان کردیا۔
عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشستوں میں سے دو پی ٹی آئی ہار گئی ہے۔اسکی بڑی وجہ پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا بوکھلایا ہونا قرار دیا جارہا ہے۔ضمنی نتائج کا کسی بھی حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اگر پی ٹی آئی کی قیادت غور وخوض کرے تو طرزِ حکمرانی میں بہتری لاسکتی ہے۔
عوام اب بھی عمران خان سے سچ کی توقع رکھتے ہیں کیونکہ گزشتہ بیس سال میں عوام سے صرف جھوٹ بولے گئے ہیں۔آئی ایم ایف کے پاس جانا ہو یا بیروزگاری کا مسئلہ ہو حکومت کو چاہئے کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی کوشش نہ کرے اور عوام کو سچ بتانے سے نہ گریز کرے اور نہ ہی خوف زدہ ہو۔عوام پی ٹی آئی کو آخری امید کے طور پر دیکھ رہے ہیں وگرنہ اگلی بار قومی لٹیرے زیادہ خطرناک بن کر ابھریں گے۔
بہرحال ضمنی الیکشن،ضمنی ایف آئی آر اور ضمنی ریفرنس ملزمان کیلئے ہوتے ہیں۔شنید ہے کے ضمنی الیکشن کی طرح نیب بھی ضمنی ریفرنس ملزمان کی خواہش کے مطابق تیار کرنے میں مصروف ہے۔ضمنیاں تحریک انصاف کیلئے بھی خطرناک ہیں اور ضمنیاں انصاف کے نظام کیلئے بھی خوفناک ہیں۔
Comments are closed.