! جرنلسٹ اور ایکٹیوسٹ میں فرق ہے
وقار حیدر
عوام تک جب بھی کوئی خبر میڈیا کی وساطت سے پہنچتی ہے تو سب سے پہلے رد عمل صحافی پر ہی کیا جاتا ہے۔ خبر سچی ہو یا کوئی ڈویلپنگ سٹوری سب سے پہلے تیر کے نشتر صحافی پر برستے ہیں۔ خبر کی تصدیق ہو یا تردید نشانے پر ہمیشہ صحافی ہی ہوتا ہے۔ آخر کیوں؟ خبر آپ کو پسند نہیں۔ خبر آپ کے نظریات کے خلاف ہے۔ خبر آپ کی پارٹی یا لیڈر کے خلاف ہے۔ خبر کسی ادارے کے خلاف ہے تو نا پسند کرنے تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ فورا ہی لفافہ صحافی کا ہیش ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔
دوسری سائیڈ پر سماجی کارکنان کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے ہر عمل پر تنقید نہیں کی جاتی۔ ان کے بہت سے سماجی کاموں اور ہنگاموں کو سراہا جاتا ہے۔ بے جا تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا ہے اور معاشرہ کا ایک بڑا حصہ انھیں معاشرہ سازی میں ایک اہم اکائی کے طور پر لیتا ہے۔ تنقید ان پر بھی کی جاتی ہے لیکن تعمیری۔ عوام کی توقعات سوشل کارکنان سے زیادہ ہوتی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ عوامی مسائل کےلئے آواز اٹھاتے ہیں
صحافی کا کام خبر پہنچانا ہوتا ہے۔ صحافی کا کام حقیقت گوش گزار کرنا ہوتی ہے۔ اس سے قطع نظر کے کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ اس کا کام تو رپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ صحافی کا کام عوامی مسائل کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ صحافی جو دیکھتا ہے وہ بیان کر دیتا ہے۔ وہ کسی کے خلاف ہو یا کسی کے حق میں۔ بس صحافی سنی سنائی باتوں پر نہیں جاتا وہ جائے وقوعہ پر جاتا ہے حالات دیکھتا جاتا ہے بیان کرتا جاتا ہے۔
صورت حال جلسہ کی ہو یا جنگ کی وہ لکھتا ہے۔ وہ آنکھوں دیکھا حال عوام تک پہنچاتا ہے اور عوام کو پل پل کی صورت حال سے آگاہ کرتا ہے۔ جب سب لوگ چھٹیاں مناتے ہیں وہ فیلڈ میں ہوتا ہے۔ جب کسی بھی قدرتی آفت سے لوگ شہر و دیہات چھوڑ کر بھاگ رہے ہوتے وہ اس جانب پیش قدمی کر رہا ہوتا ہے جہاں صورت حال تشویشناک ہوتی ہے۔ وہ پیچھے رہ جانے اور آفات میں پھنس جانے والے لوگوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کا کام معاشرہ کی عکاسی کرنا ہے نا کہ معاشرہ کو درست سمت دینا ہے۔ یہ معاشرہ سازی کا کام عوام کا اپنا ہے۔
شعور و آگاہی کے باوجود اگر معاشرہ اپنی سمت کا تعین نہیں کرتا تو اس میں صحافی کیا کر سکتا ہے۔ آئے روز صحافت کے لئے دروغ گوئی کی جاتی ہے شرفا سے ایسے الفاظ کی توقع تک نہیں کی جا سکتی۔ ایسے حالات میں صحافی بھی اپنی ذمہ داری سے ایک سٹپ اوپر ہوکر قوم کو سدھارنے اور عوام کو جگانے کا سہرہ سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
جس دن صحافی کسی بھی نعرہ کا حصہ بن جائے یا خود نعرہ لگا دے اس دن وہ صحافی نہیں کارکن بن جاتا ہے۔ پھر وہ جلسہ کسی بھی جماعت کے جھنڈے تلے ہو۔ لیکن صحافی کن حالات میں کارکن کا روپ دھارتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ انتہائی ضروری اور اہم کام ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے ان کی بات اور اہمیت نہیں دی جا رہی۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ ظلم ہوتا ہے اور آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔ جب وہ دیکھتا ہے عوامی اثاثوں میں قبضہ حکومتی ایوان میں تشریف فرما لوگوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔
دنیا میں جدت کے ساتھ ساتھ صحافی اور صحافت میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں۔ کرائم اور جنگ کی حالات میں صحافت کرنے والے تو جرنلزم اور ایکٹیوزم کو ایک ہی سمجھتے ہیں ان کے خیال میں ایکٹیوزم بھی صحافت کا حصہ ہی ہے۔ پاکستانی قبائلی عوام کے حق میں لکھنے سے لے کر یورپ میں مہاجرین تک تمام لکھنے والوں کے لئے جو ڈیبٹ منظر عام پر آ رہی ہے اس سے یہی واضح کیا جا رہا ہے کہ عوامی لیڈروں کی طرح آواز اٹھانے والا صحافی نہیں ہے یا صحافی نہیں رہا۔
فاٹا سے لے کر یورپی مہاجرین کے حوالے اصلاحات پر باتے کرنے والوں کو صحافت سے باہر گردانا جانا ہے۔ دوسری جانب جنگی رپورٹنگ کرنے والے صحافی زیادہ ایکٹیوسٹ کہلاتے ہیں وہ جو رپورٹ کرتے ہیں وہ سب میڈیا پر نہیں چل سکتا لیکن ان کے ذاتی سوشل میڈیا اکاونٹس پر وہ تمام تر صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں جس سے دیگر لوگ فالو کرتے ہیں اور اس طرح ایک چھوٹی سی ویڈیو دنیا میں بھونچال برپا کر دیتی ہے۔ وہ ویڈیو فلسطینی نرس کی ہو یا ہجرت کرنے اور سمندر کے ساحل پر پڑے ایک بچے کی۔
لب لباب یہ ہے کہ ہر لکھاری اور صحافی کا کام مسائل کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ حالات و واقعات کو عوام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ آنکھوں دیکھا حال یا سرچ کر کے کچھ چھپی چیزوں کو عوام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اگر قارئین کو لگتا ہے کہ صحافی ہر کام کا خود تجربہ کرے یا خود حالات کا حصہ بنے تو معذرت کے ساتھ یہ صحافی کا کام نہیں۔ ہاں البتہ بطور کارکن انجام دیا جا سکتا ہے۔ صحافیوں کو بھی فیصلہ کرنا ہے کہ جرنلسٹ ہیں یا ایکٹیوسٹ؟ اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے یا معاشرہ سازی کی ذمہ داری کا بیڑہ بھی خود اٹھانا ہے؟ آخری بات
You have to decide, whether you are a Journalist or Activist ?
دنیا میں اس وقت بڑے اور اہم پلیٹ فارمز پر یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا جرنلزم، ایکٹیوزم سے مختلف ہے یا دونوں ایک ہی ہیں۔ نیچے دو لنک دئیے گئے ہیں تاکہ تنقید سے پہلے تحقیق میں آسانی ہو۔
https://www.theguardian.com/media/greenslade/2011/jun/27/us-press-publishing-new-york-times
http://niemanreports.org/articles/whats-the-difference-between-activism-and-journalism
Comments are closed.