صنف نازک سے ‘سالن خود گرم کرو تک’ کا سفر
وقار حیدر
جب کبھی عورت کی بات ہوتی ہے تو ہمیشہ نازکی، خوشبو، جذبات، احساسات، لطافت، پیار و محبت بھرے جذبوں کے تناظر میں ہوتی ہے، عورت کو ہمیشہ سے عزت دار سمجھا اور جانا گیا ہے، دنیا کے تمام مذاہب کو مقدس اور لطیف انداز میں پیش کیا گیا، لیکن پھر نیا دور آیا، عورت کی آزادی کا نعرہ لگایا گیا۔
حقیقت حال کچھ یوں تھی کہ عورت کی آزادی کے نعرہ میں لذت و خباثت کےعوامل کارفرما تھا جس کا ادارک مغربی عورت کو بہت دیر بعد ہوا، یوں کہیے کہ تب تک پانی سروں سے گزر چکا تھا، اصل میں وہ نعرہ عورت تک بے باک رسائی کی آزادی کا تھا، جب عورت تک رسائی آسان ہو گئی تو پھر عورت کے جذبات، احساسات کے ساتھ پیار و محبت کے جال ڈال کر کھیلا گیا۔
عزت دار خواتین کی آبرو ریزی عام کی گئی، نفسانی خواہشات کی تکمیل کےلئے عورت کو آئی کان بنا کر عورت کے سامنے پیش کیا گیا، صنف نازک کو گوشت سمجھا گیا اور بس اس کو کسی بھی انداز میں کھائے جانے کی تراکیب بنائی گئی، پھر عورت ون ڈش بن کر رہی ہے، آزادی کے نعرہ کی آڑ میں عورت سے تسکین حاصل کی اور پھر عورت کو بے قدر و قیمت جان کر بے جان جذبوں کی بھینٹ چڑھا کر سر راہ چھوڑ دیا گیا۔
مغرب کی عورت کو اب یہ بات تو کسی حد تک سمجھ آ گئی ہے لیکن اب پچھتائے کیا جب چڑیاں چگ گئی کھیت، اور رہی بات مشرقی عورت کی تو چڑیوں کے چنبے کی روایات یہاں بھی تقریبا دم توڑ چکی ہے۔
مرد کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کی خواہش رکھنے والی مشرقی عورتیں کب مرد کے مد مقابل آ ٹھہریں اس کا احساس کچھ زیادہ پرانا نہیں، مغربی معاشرتی برائیوں سے تنگ عورت جب مرد کے سامنے آواز اٹھانے لگی تو کچھ مغرب زدہ مشرقی خواتین بھی انکی ڈگر پر چل نکلیں، یہ سوچے، سمجھے اور جانے بغیر کہ سورج نکلنے اور ڈھلنے کے مقام کو باہم متصل کرنا بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں،
پہلی عورت جس نے دنیا بھر میں پاکستان کا مسخ چہرہ دنیا کو دیکھا کر نہ صرف پاکستان کا نام روشن کیا بلکہ خود بھی بہت نام کمایا، “سیونگ دا فیس” نے تیزاب گردی کے واقعات تو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا کہ پاکستانی مرد دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا اور اور وہ ڈاکومینٹری والا فیس آج تک بے یارو مددگار ہی رہا، ہاں مگر اس مسئلے کو بے نقاب کرنے والی خاتون شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئیں۔
انکی بہن کو سوشل میڈیا پر جب ایک ڈاکٹرنے دوستی کا پیغام بھیجا تو ان معزز خاتون صاحبہ نے اس حرکت پر ڈاکٹر صاحب کو نہ صرف برخاست کروا دیا تھا بلکہ انکی معاشرتی ساکھ کو بھی تہ و بالا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس دوست کے پیغام کو ہراسگی کہا گیا
دوسری عورت کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مخصوص نشست کےلئے نامزد کیا گیا اور انہیں ایوان زریں میں بطور رکن کرسی بھی الاٹ کروائی گئی، تقریبا 3 سال سے زائد کا عرصہ اسی پارٹی میں رہنے کے بعد اچانک ایک دن وہ مرد کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور بلیک بیری سے پیغامات کی ایک کہانی میڈیا کے کانوں سے پہنچا دیا جسے میڈیا نے عوام کی آںکھوں میں دھکیل دیا، ایک پارٹی سربراہ پر ہراسگی کا الزام عائد کیا گیا
تیسری عورت مشہور و معروف گلوکارہ جو عرصہ دراز سے شوبز سے منسلک ہیں اور کافی شہرت بھی رکھتی ہیں وہ بھی ایک مرد کے خلاف برسر پیکار ہوئیں اور الزام ہراسگی عائد کر دیا، مرد گلوکار کی جانب سے نوٹس بھیجا گیا جس کا تاحال جواب تو نہیں دیا گیا لیکن اس مرد کو بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی
پھر ایک اور عورت نے اپنے سابقہ شوہر پر الزامات پر مبنی ایک کتاب لکھ ڈالی جس کی بارہا تصدیق و تردید کی جا رہی ہے، انکی تاحال غیر اشاعت کتاب کے کچھ صفحات کیمرہ کی آنکھ سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر گردش کر رہے ہیں ان میں کیا کچھ لکھا ہے آپ پڑھیں گے تو یقین کیجئے مزہ لیں گے۔
میرے خیال میں “پارلیمنٹ سے بازار حسن تک” کتاب کے بعد اس آنے والے کتاب میں کافی پسندیدہ مواد ملے گا جس سے قارئین مزہ لے لے کر پڑھیں گے خاص طورپر مرد، کیونکہ کتاب میں مردوں کی کردار کشی کے امکانات واضح ہیں۔
یہ چاروں خواتین کوئی عام خواتین نہیں ہیں میں نے انکا نام نہیں لکھا لیکن پڑھنے والے ایک ایک نام سے واقف ہیں، بات ختم کرتے ہیں، بات اتنی سی ہے مردوں کے معاشرے میں مردوں پر ہے الزامات لگا کر ان کا امیج خراب کیا جا رہا ہے اور اس قابل مذمت بات کو لائق تحسین اور قابل تقلید بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
ان خواتین کی باتوں کو قابل سماعت سمجھا جاتا ہے اور ان ہی خواتین کی باتوں سے باقی پڑھی لکھی خواتین بھی “اپنا سالن خود گرم کرو” جیسے نعرے کے ساتھ شاہراوں پر سرعام اپنی سائیکل لئے راستہ مانگ رہی ہوتی ہیں۔
کیا اب عورت کو نام پیدا کرنے کےلئے مرد کی عزت کے ساتھ کھیلنے دیا جائے؟ یا پھر ان کو ساتھ چلنے، ساتھ رہنے، عزت دینے اور عزت کروانے کے فارمولے اور معیارات سے آگاہ کیا جائے کہ معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا نہ ہو، حالات اس ڈگر پر چل نکلے ہیں کہ ایک جملے میں سمیٹتے ہیں “بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا “
Comments are closed.