نامہرباں دسمبر، جدائی کا استعارہ
فوٹو : ٹوئٹر، کچھ خواب ادھورے سے
عارف حسین
کہنے کو تو دسمبر سال کا آخری مہینہ ہے، لیکن اس نے جو معنی پہنے، جو مفہوم اوڑھا، اس کی تفصیل کے لیے دفتر چاہیے۔
یخ بستہ ہوائیں، خنک شامیں اور یادیں دسمبر کا امتیاز ہیں۔ سال کا یہ آخری مہینہ نجانے کب جدائی اور ہجر کا استعارہ بنا ہو گا، کیوں اسے یادوں سے جوڑا اور کب یاسیت اور افسردگی سے نتھی کیا گیا ہو گا۔
یوں تو سبھی دسمبر سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، لیکن اردو شعرا نے خاص طور پر اپنی تخلیقات میں دسمبر سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
آئیے، 2019 کے اس دسمبر کو شاعری کے قالب میں دیکھتے ہیں۔
امجد اسلام امجد کی نظم “آخری چند دن دسمبر کے” پڑھیے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
خالد شریف کے اشعار
کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیردسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
یہ شعر ملاحظہ ہو
یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا
اور دسمبر میں کسی امید پر ایک دستک، ایک آہٹ پر بے تاب ہو جانے والے شاعر کی یہ کیفیت دیکھیے
دسمبر کی شبِ آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا
جب کسی کے سامنے خود کو بکھرا ہوا اور شکستہ نہ ثابت کرنا ہو تو اس شعر کا سہارا لیا جاسکتا ہے
مجھے کب فرق پڑتا ہے دسمبر بیت جائے تو
اداسی میری فطرت ہے اسے موسم سے کیا لینا
وہ دسمبر کی آخری اور نامہربان شام تھی جب عبدالرحمان واصف نے جنوری کے نام ایک پیام پڑھا، ان کی یہ نظم پڑھیے
جنوری مبارک ہو
ڈوبتے دسمبر کی
ناتمام کرنوں نے
شام کے سرہانے پر
چند پھول رکھے ہیں
دل نشین لہجوں کے
دل فگار باتوں کے
دل فریب لمحوں کے
یہ پیام بھیجا ہے
دل نشین چہروں کو
دل فریب لہجوں کو
دل نواز لوگوں کو
زندگی مبارک ہو
جنوری مبارک ہو
آنے والے وقتوں کی دوستی مبارک ہو!
(بشکریہ اے آر وائی نیوز)