ویکسین کی تمام اقسام کیلئے عالمی قبولیت ناگزیر ہے، ابرارالحق

اسلام آباد(وقار مغل فانی)ہلال احمر پاکستان  کے چیئرمین ابرار الحق نے کہا ہے کہ  دنیا کے تمام ممالک میں کورونا وائرس کے خلاف  ویکسینیشن شروع ہوچکی ہے اور کئی  اقسام کی ویکسین بین الاقوامی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

ہر ملک نے مقامی قواعد و ضوابط اور  اپنی حکومتی پالیسی کے مطابق ویکسین کی مخصوص قسم  کی منظوری دے رکھی ہے۔  جس کی وجہ سے اب تک تیار کردہ کوویڈ 19 ویکسین کے ”اقسام“کے لئے  عالمی قبولیت کا مسئلہ پیدا ہوچکاہے۔

ہلال احمر کے چئیرمین ابرار الحق نے کہا ہے
تمام مسافروں کےبیرون ممالک سفر کے لئے لئے کوویڈ۔19 ویکسینیشن لازمی ہے مگر مختلف ممالک میں مختلف ویکسین کی منظوری سے مسافروں کو بین الاقوامی سفر میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

انھوں نے کہا میزبان ممالک  اپنی منظور کردہ ویکسین کی سرٹیفیکیشن کو ہی قبول کرتے ہیں۔مسافر اپنے ملک میں دستیاب ویکسین لگوا کر جاتے ہیں مگر جس ملک جانا ہے وہ اپنے ملک کی منظور کردہ ویکسین کا  سرٹیفکیٹ طلب کرتا ہے جو کہ پریشانی کا باعث ہے۔

ہلال احمر کے چئیرمین  ابرار الحق نے اس معاملے کو دوسرے ممالک کے ساتھ اٹھانے پر حکومت پاکستان کی تعریف کی۔ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی ہدایت پر دنیا کے سب سے بڑے انسان دوست نیٹ ورکس سے رابطے کئے جارہے ہیں.

انٹرنیشنل  فیڈریشن  آف ریڈ کراس، ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (IFRC) کے پلیٹ فارم کے ذریعہ ہلال احمر  بھی متعلقہ حلقوں کو راضی کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے تاکہ کوویڈ 19  ویکسین کی تمام اقسام کو عالمی قبولیت فراہم کی جاسکے.

ابرار الحق نے کہا ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ  پاکستانیوں کو بین الاقوامی سفر میں درپیش رکاوٹوں کو ختم کیا جاسکے تمام  اقسام کی ویکسین کی عالمی قبولیت ناگزیر ہے۔

یہ مسئلہ انفرادی مسافروں کو ہی درپیش نہیں بلکہ بیرون ملک تجارت، تعلیم، روزگار، طبی علاج یا دیگر مقاصد کے لئے جانے والے افراد کے  لئے بھی نقصان اور پریشانی کا باعث ہے۔

ان کہنا ہے کہ بیرون ممالک  مقیم  ہزاروں پاکستانی  چھٹی گزارنے پاکستان آئے اور اب ویکسینیشن کے باوجود واپس نہیں جا سکے وجہ یہ ہے  کہ کویڈ ویکسین کی جو قسم وطن عزیز میں لگائی جارہی ہے اسے مذکورہ ممالک میں تاحال منظور ہی نہیں کیا گیا۔

انہوں نے  اس جانب توجہ دلائی کہ اگر  ویکسین کی تمام اقسام کو تمام ممالک میں قبول اور منظور نہ کیا گیا تو   تو یہ مسئلہ  اس دنیا کے لئے ایک اور بحران کی صورت اختیار کرسکتا ہے جو پہلے ہی کورونا وبا کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔

Comments are closed.