بنگالن
محبو ب الرحمان تنولی
یہ سقوط ڈھاکہ کے آخری دنوں کا قصہ ہے مشرقی پاکستان کے ایک گھر میں ہر روز ہزاروں دیگر بنگالی گھروں کی طرح علیحدگی کا تانا بانا بننے کے لئے ایک کارنر میٹنگ ہوتی، جس میں دو میاں بیوی ان کا بیٹا اور بیٹی شریک ہوتے تھے، نظام الدین بھارتی فوجیوں اور ایجنسیوں سے ہونے والی ملاقات میں پیش رفت کی داستان سناتا، اس کا بیٹا سراج الدین ڈھاکہ یونیورسٹی میں ”مکتی باہنی“ کی کارستانیوں کی روداد لے بیٹھتا، بیٹی عفت پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کی مخالف تھی۔
اس لئے باپ بیٹے کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے اکثر انھیں ٹوکتی اور باپ سے ڈانٹ ڈپٹ کھاتی رہتی تھی جبکہ عفت کی ماں کلثوم غیر جانبدار کردار تھا۔ جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے باپ بیٹے کی سازشوں کی نفی بھی نہ کرسکتی تھی اور بحیثیت مسلمان عفت کے پاک فوج کیلئے نیک جذبات کی بھی حامی تھی ،گویا اس ایک گھر میں ایک چھوٹا سا پاکستان تھا اور تھا یہ مشرقی پاکستان ہی، کیونکہ عددی حساب سے چار افراد کے اس گھر میں50 فیصد اکثریت مشرقی پاکستان کی حامی، 25 فیصد متحدہ پاکستان اور 25فیصد رائے مصلحت کا شکار تھی۔
ہر رات بننے والی سازش عفت کے ذریعے بے نقاب ہو جاتی کیونکہ اس کی رگ رگ میں پاکستانیت اور مسلمانیت خون کے ساتھ رواں دواں تھی اور ہر روز وہ کالج سے واپسی پر مغربی پاکستان کے ایک نوجوان فوجی افسر سے ملتی اور اسے ڈھاکہ یونیورسٹی میں مکتی باہنی کے کیمپ اور باپ کی سرگرمیاں، بھائی اور باپ کی زندگی کی انشورنس کے بدلے بتادیتی۔ یہ نیٹ ورک کئی ماہ تک چلتا رہا۔
فوجی افسراس ٹاسک پر بڑی جانفشانی سے کام کرتا رہا اس دوران عفت کی قبل ازوقت اطلاع پر کئی بار وہ لوگ ”مکتی باہنی“ کے غنڈوں کے ہاتھوں بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے رہے ۔ایک شام عفت کے اصرار پر کیپٹن زمان اس کے گھر گیا ،نظام الدین اور سراج الدین نے بظاہر اس کا پرتپاک استقال کیا، لیکن ساتھ ساتھ اس کی موت کا بھی سامان کرلیا ۔عفت اور کیپٹن کو بیٹھک میں بٹھا کر گھر کی باقی نفری چائے کے بہانے اندر چلی گئی۔
شک گزرنے پر جب عفت نے اندر کا چکر لگایا تو اس کا باپ اور بھائی چائے میں زہر ملا رہے تھے عفت پاؤں دبا کر واپس بیٹھک میں لوٹی تو مکتی باہنی کے ایک جاسوس کو وہاں موجود پایا۔ جو کیپٹن زمان کی وہاں موجودگی اور آمد کی وجہ کرید رہا تھا مگر عفت کو دیکھ کر چپ سادھ لی، اتنے میں گھر کا ایک ملازم ایک کپ چائے اور پلیٹ میں کچھ بسکٹ لئے اندر داخل ہوا، اور آتے ہی پیغام دیا۔ بیٹی آپ کو اندر نظام الدین صاحب بلارہے ہیں۔
آپ چلیں! میں آئی یہ کہہ کر عفت اٹھی اور میز پر رکھی چائے اٹھا کر اس جاسوس کے حوالے کردی ۔نہیں سرکار! آپ پئیں اس شخص نے زمان کی طرف اشارہ کیا۔ مہمان کو پہلے دیں! میں پی لوں گا۔ اس سے پہلے کچھ زمان بولتا۔ عفت نے جواب دیا ہم پی چکے ہیں پھر عفت اور زمان یونیورسٹی میں پڑھائی کے فقدان پر محوگفتگو ہوگئے۔دوسری طرف نظام الدین اور سراج الدین کیپٹن زمان کی کہانی تمام ہونے کے انتظار میں تھے کہ ادھر بیٹھک میں چائے کے کچھ گھونٹ لینے والا وہ شخص کرسی پر ہی ایک طرف لڑھک گیا۔
۔۔کیا؟ کیپٹن زمان نے اس کو سہارا دینا چاہا مگر عفت نے اسے بازو سے پکڑا اور باہر لے گئی۔ یہ کیا ہوا ہے؟ یہ سب آپ کو بعد میں بتاؤں گی ابھی آپ ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر نکل جائیں۔ کیپٹن زمان نے جیپ اسٹارٹ کی اور چلتا بنا۔ عفت کے بیٹھک میں لوٹنے تک اس کا باپ اور بھائی بھی وہاں آچکے تھے۔ اس کو کیا ہوا؟ نظام نے بیٹی سے پوچھا، ابو! زہر کاجو پیالہ آپ نے کیپٹن زمان کیلئے بھیجا تھا اس نے پی لیا۔
اس نے کیوں پی لیا؟ اس لئے کہ میں کیپٹن زمان کو یہاں مارنے کے لئے نہیں لائی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آپ میرے ساتھ آئے مہمان کے ساتھ یہ سلوک کریں گے یہ جملہ ابھی عفت کی زبان پر ہی تھا کہ نظام نے زوردار چانٹا اس کے گال پر دے مارا۔ مہمان؟ ہمارے دیش کی دیہمک کو تم مہمان کہہ رہی ہو! دیش کی دھیمک وہ نہیں آپ ہیں۔ ۔آپ ہندو…… بنیئے کے ہاتھ دھرتی ماں کا سودا کر رہے ہیں آپ سب غدار ہیں۔
عفت چیخ چیخ کر کڑوا سچ بولتی رہی اس کی ماں اسے گھسیٹ کر اندر لے گئی ۔باپ بیٹے نے اندھیرا ہونے کا انتظار کیا اور پھر کرسی کی ٹیک پر لڑھکے اس مردہ جسم میں پستول سے کئی گولیاں اتار دیں، لاش باہر سڑک پر پھینک دی گئی۔ دوسری صبح یہی باپ بیٹا سینکڑوں لوگوں کے ہمراہ سڑک پر لاش اٹھائے فوج کے ہاتھوں اس قتل کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور بنگالی جنتا کا ایک متعصب طبقہ سچ اور جھوٹ پرکھنے کے خلاف تھا ۔
اس لئے سینکڑوں معصوم جانوں کے ضیاع کی طرح اس موت کے ذمہ داری بھی سکیورٹی فورسز کے کھاتے ڈال دی گئی۔ اس کے پیچھے کون تھا؟ بھارتی ایجنٹوں اور مکتی باہنی کے متعصبانہ طبقے نے ایسے سینکڑوں قتل خود کئے اور ان کا الزام فوج کے سر تھوپ دیا، انہی دنوں ایک بھارتی ایجنٹ مہندرجی، جوکہ بھارتی فوج کا ایک اعلیٰ افسر تھا کو نظام الدین کی بیٹی عفت کی حب الوطنی کی خبر ہوگئی۔
وہ ایک رات…… غنڈوں کو ساتھ لیکر نظام کے دروازے پر آگیا۔ دستک پر سراج الدین نے دروازہ کھولا! لیکن اسے سوال کرنے کا موقع نہ ملا۔ مسلح غنڈوں نے اس پر بندوقیں تان لیں اور اندر داخل ہوگئے۔ عفت کہاں ہے؟ اسے ہمارے حوالے کرو۔ مہندرجی نے چلا کر کہا!!!تمیز سے بات کرو مہندر! عفت میری بیٹی ہے، نظام نے برآمدے میں قدم رکھتے ہی للکارتے ہوئے جواب دیا۔۔ بنگالیوں سے غداری کرنے والی تمہاری بیٹی نہیں ہوسکتی۔۔
مہندر نے بندوق کے بٹ سے سراج الدین کو اپنے ساتھیوں کی طرف دھکیلتے ہوئے ڈائیلاگ بولا۔ تم کون ہوتے ہو بنگالیوں کی تفتیش کرنے والے ؟تمہیں کس نے بلایا ہے یہاں؟ نکل جاؤ میرے گھر سے، ابھی فقرا نظام الدین کے منہ میں ہی تھا کہ مہندر نے اس کے کھنے پر گھونسا رسید کیا اور پھر مہندر کے ایک ساتھی نے پستول سے فائر کر دیا، گولی نظام الدین کے سر سے آرپار ہوگئی۔
سراج نے قاتل کی جانب بڑھنا چاہا لیکن اس کے عقب میں کھڑے دو نقاب پوشوں نے اسکے بازو پیچھے سے قابو کئے اور اسے صحن کے ستون سے باندھ دیا۔ نظام نے دو بار ایڑیاں رگڑیں، پھر ٹھنڈا ہوگیا۔ گھر میں موجود خواتین نے باہر آکر منظر دیکھنے کی بجائے اپنے کمرے کے دروازے کو اندر سے بند کر دیا اس سے پہلے کہ مہندراندر جانے کی کوشش کرتا باہر جیپ رکنے کی آواز آئی، مہندر ایک ساتھی کے ہمراہ دیوار پھاند کر دائیں طرف اندھیرے میں روپوش ہوگیا.
دروازے کے پیچھے سے کسی نے سب کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا، صحن میں موجود پانچ نقاب پوشوں نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا پھر اپنی بندوقیں سامنے پھینک دیں، کیپٹن زمان صرف دو سپاہیوں کے ساتھ اندر داخل ہوا ۔اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔ زمان کے اشارے پر سپاہیوں نے غنڈوں کے ہتھیار اٹھا کر ایک طرف رکھ دیئے، پھر ایک ایک کر کے سب کے ہاتھ پاؤں باندھے، زمان کی آواز پر کمرے کا دروازہ کھلا، عفت اور اسکی ماں باہر آئیں اور نظام الدین کی لاش پر آہ وزاریاں کرنے لگیں۔
زمان نے ریوالور کی نوک سے یکے بعد دیگر ے سب نقاب پوشوں کو بے نقاب کیا اور پھر ستون سے بندھے سراج الدین سے مخاطب ہوا… تمہیں نفرت کے شعلوں کو ہوا دینے کے لئے ایک اور لاش مل گئی ہے۔ اسے بھی فوج کے کھاتے میں ڈال دینا۔ تمہیں احساس تو ہوگا لیکن تب تک پل کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہوگا۔ سراج الدین مسلسل خاموش تھا اور اس کے گالوں سے باپ کی موت اور فوج کے لئے رشک کے آنسو بہہ رہے تھے سپاہیوں نے پانچوں غنڈوں کو اٹھا کر جیپ میں ڈال دیں
زمان جانے کے لئے دروازے کی طرف بڑھا! پھر واپس لاش کے پاس آیا۔ عفت معاف کرنا! میں تمہارے باپ کو مرنے سے نہیں بچاسکا، افسوس اس بات کا ہے کہ اسے مکار دشمن کا جھوٹ لے ڈوبا، ہمارا سچ سمجھ نہیں آیا ،مگر ایک بات یاد رکھنا! جب تک ہمارا بس چلے گا پاک سرزمین پر کوئی آنچ نہیں آنے دینگے۔
عفت! تم حق پر ہو صبر کرو! تمہارے لوگ شاہد وردی میں میری یہاں موجودگی برداشت نہ کرسکیں، اس لئے اب چلتا ہوں صبح عام لباس میں تمہارے باپ کی میت کو کندھا دینے آؤں گا۔ زمان یہ کہہ کر چلا گیا عفت نے روتے ہوئے ستون سے بندھے اپنے بھائی کو کھولا، پھر تینوں لاش کے گرد جمع ہوگئے اگلے دن کیپٹن زمان کی ایک ماہ کیلئے چٹاگانگ پوسٹنگ ہوگئی۔
30 دن بعد جب زمان واپس آیا تو حوالدار رسالت نے دفتر میں زمان سے ملاقات کی اور اسے بتایا کہ دس روز قبل یہاں پر برقعہ پہنے ایک خاتون آئی تھی آپ کی پوسٹنگ کا سن کراس نے ٹھنڈی آہ بھری اور واپس چلی گئی۔ مجھے شک ہوا یہ وہی نظام دین کی بیٹی ہے جس کے گھر ایک رات ہم گئے تھے جہاں نظام مہندر کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ میں زمان صاحب تک پیغام پہنچادوں گا کوئی بات ہوتو مجھے بتادیں۔ مگر وہ چلی گئی۔
اب کہاں ہے وہ؟ کیپٹن زمان کے سوال پر حوالدار رسالت نے ایک خط زمان کے سپرد کرتے ہوئے کہا اس میں سب تفصیل موجود ہے ۔کس نے دیا یہ خط تمہیں؟ کیپٹن زمان نے استفسار کیا، جس رات عفت کو قتل کیا گیا صبح سویرے ہماری نفری وہاں پہنچ گئی تھی سپاہی عظمت نے اسکی بند مٹھی سے یہ خط نکالا تھا پڑھا تو آپ کے نام تھا۔ عفت بھی ق ق ق… قتل ہوگئی؟ کیپٹن زمان نے افسردہ لہجے میں یہ جملہ کہا !پھر سلوٹوں سے چور چور کاغذ کھولا تو لکھا تھا۔
زمان صاحب،
میں نے کوشش کی لیکن شاید آخری ملاقات مقدر میں نہیں ہے پاکستان سے محبت میری رگوں میں خون کے ساتھ دوڑتی ہے۔ جب تک سانسوں کی ڈور ٹوٹ نہیں جاتی،اس وقت تک اس محبت کو کوئی مجھ سے الگ نہیں کرسکتا، لیکن نہ جانے اس کے باوجود جب پرسوں آپ سے ملنے گئی اورملاقات نہیں ہوئی اور پتہ چلا کہ آپ چٹاگانگ چلے گئے ہیں تو ایسا لگا جیسے میرا مان ٹوٹ گیا ہو!!! چاہنے کے باوجود آپ کے کسی ساتھی کو میں مکتی باہنی کی نئی سازش کے بارے میں کچھ نہیں بتاسکی، آپ کے جانے کے بعد سراج الدین نے مکتی باہنی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور پاک فوج اور پاکستان کازبردست حامی ہوگیا تھا۔ اس جرم کی سزا میں اسے ابو کی طرح قتل کردیا گیا ۔
اب میں اور ماں ان کا ہدف ہیں شہر میں کوئی دل کی بات سننے والا بھی نہیں، آخری دم تک آپ کا انتظار کرونگی۔ آپ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف اپنا مشن جاری رکھیں خدا آپ کو کامیاب کرے۔آمین،عفت
خط پڑھ کر کیپٹن زمان نے آنکھیں بندکیں اور کرسی سے ٹیک لگادی۔ پلکوں سے سرک کرکچھ آنسو گالوں پر آگئے، زمان نے انہیں چھپانے کیلئے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ لئے اورسر میز پر جھکا دیا،کچھ دیر انتظار کے بعد حوالدار نے سامنے رکھے کاٹن سے ٹشو نکالا… سر! یہ ٹشو لیں۔
زمان ہاتھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کرسی پر سیدھا ہوگیا۔ حوالدار میں رو تو نہیں رہا!!! ایک محب وطن بنگالن کی قربانی پر رشک آگیا تھا، وہ بھی تو بس!!! پاگل !
Comments are closed.