اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
جب عمر کی نقدی ختم ہوئی ……… ابن انشا
ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ا ب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاں ا پنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب ناما دھر کا آیا کیوں
سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں ،سود بیاج بھی دے لیں گے
ہاں اور خراج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں اس مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیاسنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
یہا پنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ان سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس ؟
کیا عمر اپنی کے پانچ برس ؟
تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
جب عمر کا آخر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی نرالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہاں تم سے ہمارا رشتہ ہے
کیاسود بیاج کا لالچ ہے ؟
کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار ، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ آنکھوں کت جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو اپنے جی میں اتار لیا
لو ہم نے تم کو ادھار لیا