ریکوڈک، اب آرام ہے ؟
یاسر پیر زادہ
ریکوڈک کا غلغلہ آج سے آٹھ دس سال پہلے اٹھا تھا، ان دنوں اخبارات میں خبریں شائع ہوئی تھیں اور بچے بچے کی زبان پر ریکوڈک کا نام چڑھ گیا تھا، کہانی سب کی ایک ہی تھی کہ سونے اور تانبے کے ان ذخائر کی مالیت دو ٹرلین ڈالر سے کم نہیں، یہ پاکستان کا مستقبل سنوار دیں گے مگر غیر ملکی کمپنیاں نہایت چالاکی کے ساتھ یہ ذخائر ہم سے ہتھیانا چاہتی ہیں۔
ہم پاکستان کو کانگو نہیں بننے دیں گے، کسی مغربی ملٹی نیشنل کو اس کا ٹھیکہ نہیں دیں گے، ہم خود یہ سونا نکالیں گے، ثمر مبارک مند صاحب یہ کام کر سکتے ہیں، حکومت کے لوگ کرپٹ ہیں لہٰذا عدالت عظمیٰ سو موٹو نوٹس لے کر عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ آپ اس زمانے کے اخبارات نکال کرپڑھ لیں، ٹی وی ٹاک شوز کے کلپ دیکھ لیں یا نام نہاد سائنسدانوں کے انٹر ویو سن لیں۔
سب یہی راگ الاپتے نظر آئیں گے کہ غیر ملکی کمپنی نے سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے ایک فراڈ قسم کا معاہدہ کیا ہوا ہے جسے بنیاد بنا کر ہمارے معدنی وسائل پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ یہ وہ بیانیہ تھا جس پر ہماری قوم کو ایمان کی حد تک یقین تھا۔ بچپن سے ہمیں ہیروں کی کان، سونے کے پہاڑ اور تانبے کے ذخائر کی مدد سے امیر ہونے کا بہت شوق ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ پاکستان میں اس قسم کے ذخائر کی کمی نہیں تاہم معدنیات کے بارے میں ہمارے علم کا حال یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب کہیں سونے کے ذخائر دریافت ہو جائیں تو اس کے بعد بس انہیں کھود کر نکالنے کا کام باقی رہ جاتا ہے۔
لیکن جب غیر ملکی کمپنیاں جب سونا تلاش کر لیتی ہیں تو وہ غریب اور پسماندہ ممالک کو اصل مالیت نہیں بتاتیں بلکہ انہیں چند ٹکے دے کر باقی کا سونا اپنے ملک میں تھیلے بھر کے لے جاتی ہیں۔ ریکوڈک میں بھی یہی ہونے جا رہا تھا مگر ہم نے صحیح وقت پر کمپنی کو اس کام سے روک دیا۔
یہ تو ہوا مقبول بیانیہ، اب ذرا ایک نظر حقائق پر بھی 1993میں BHPنامی ایک کمپنی نے بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے معاہدہ کیا کہ چاغی کے علاقے میں جو معدنی وسائل دریافت ہوں گے اس میں سے 25%بلوچستان جبکہ 75%کمپنی کا حصہ ہوگا جبکہ ان وسائل کو دریافت کرنے اور نکالنے کی ذمہ داری اور اس ضمن میں ہر قسم کی سرمایہ کاری کمپنی کرے گی۔
عالمی معیار کے حساب سے یہ ایک بہترین معاہدہ تھا کیونکہ دنیا میں کہیں بھی ریاست کو معدنیات میں حصہ نہیں ملتا، ریاست کا حصہ ٹیکسوں اور رائلٹی کی صورت میں آتا ہے، یہ اپنی نوعیت کی غالباً اچھوتی مثال تھی جہاں ریاست پاکستان کو بنا کچھ کیے معدنیات کا 25%حصہ دار بنایا گیا۔
بعد میں اس معاہدے میں تبدیلی کی گئی جس کے تحت بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جگہ حکومت بلوچستان نے لے لی جبکہ BHPکی جگہ TCCنے لے لی مگر شراکت داری کی شرائط وہی رہیں۔TCC آسٹریلیا کی ایک کمپنی ہے جس میں دو کمپنیوں کے برابر کے شئیر ہیں جن میں سے ایک کمپنی یو کے میں رجسٹرڈ ہے جس کا صدر دفتر چلی میں ہے۔
دوسری کینیڈا میں ہے جو سونا نکالنے کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ کمپنی نے معاہدے کے مطابق کام شروع کر دیا مگر اسی دوران 2009میں بلوچستان نے چین کی ایک کمپنی کو بھی دعوت دی کہ وہ اپنی پروپوزل دے اور ہمارے ثمر مبارک مند نے بھی ایک پی سی ون بنا دیا کہ ہم یہ کام خود ہی کر لیں گے۔
موصوف کے پراجیکٹ کو ’’بلوچستان کاپر گولڈ پراجیکٹ‘‘ کا نام دیا گیا اور اسے منظور کر کے آٹھ ارب روپے مختص کر دیے گئے۔ 15فروری 2011کو TCCنے حکومت کو مائننگ لیز کی درخواست دی، جو مسترد کر دی گئی، کمپنی نے اس کے خلاف اتھارٹی کو اپیل کی وہ بھی خارج کر دی گئی۔
کمپنی کی درخواست کو جیسے نمٹایا گیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ متعلقہ افسر نے جو پہلا اعتراض اٹھایا وہ یہ تھا کہ کمپنی تو کہیں رجسٹرڈ ہی نہیں، یہ اس سلوک کی ہلکی سی جھلک ہے جو ہم نے اس کمپنی کے ساتھ کیا۔ ریکوڈک سے 13ملین اونس سونے کے ذخائر ملنے کی امید تھی مگر یہ ذخائر کہیں دفن نہیں تھے۔
اس کے لئے کمپنی کو پورے علاقے میں انفرااسٹرکچر تعمیر کرنا تھا جو وہاں مفقود تھا، ایک ایسی جگہ جہاں صرف ریت ہو وہاں سے یہ سونا 56برس میں کئی سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد نکلنا تھا۔ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا۔
کمپنی نے جو فیزبیلٹی اسٹڈی جمع کروائی اس کے مطابق ہر قسم کے منافع، ٹیکس اور رائلٹی کی مد میں وفاقی اور صوبائی حکومت کو پورے منصوبے کے دوران distributable cash flowکا 50%ملنا تھا مگر ہمیں اس میں بھی سازش کی بو آئی لہٰذا کمپنی کے معاہدے کو ہم نے غیر قانونی قرار دے کرمنسوخ کر دیا۔
کمپنی نے آسٹریلیا پاکستان سرمایہ کاری معاہدے کے تحت عالمی بینک کے ثالثی ادارے سے رجوع کیا، اس ادارے نے پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ اب ہمیں آرام ہے۔
ثالثی ادارے کا یہ جرمانہ کسی ایک فرد یا ادارے کا قصور نہیں، یہ پوری قوم کی سوچ کے خلاف چارج شیٹ ہے، ہم آئے دن ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کرتا، ثالثی ادارے کا فیصلہ ہمارے اس سوال کا جواب ہے۔ گزشتہ ستّر برس میں ہم نے کئی ایڈونچر کیے، بے شمار حماقتیں کیں، عجیب و غریب بیانیے تشکیل دیے۔
ان تمام باتوں کی قیمت ہم کسی نہ کسی شکل میں چکاتے رہے مگر ہمیں احساس نہیں ہوا کیونکہ ہماری ان حرکتوں پر کسی بین الاقوامی ادارے نے عالمی معیارات کے مطابق جرمانے عائد نہیں کیے۔ مثلاً ہم آج تک ایوب خان کے دور کو سنہری کہتے ہیں حالانکہ اگر کوئی عالمی ایجنسی اس دور کا cost-benefit analysisکرے تو ہمیں پتا چلے کہ ہم نے اس کے نتیجے میں کیا گنوایا۔
اسی طرح 1977یا 1999کے مارشل لا کی کو اگر عالمی عدالت انصاف میں پرکھا جائے تو معلوم ہو گاکہ قوم کو یہ کتنے ارب ڈالر اور کتنی دہائیاں پیچھے لے گئے۔ ہم نے اعلیٰ ترین سطح پر جو فیصلے کیے اور جن کی کبھی باز پرس نہیں ہوئی، ان کا خمیازہ قوم نے تنزلی کی شکل میں بھگتا مگر چونکہ کسی تھرڈ پارٹی نے ہمیں یوں جرمانہ عائد کرکے احساس نہیں دلایا اس لئے ہم اپنی ناکامی کی وجہ پاپولر بیانیے کے تحت کرپشن اور عالمی سازشوں کو قرار دیتے رہے۔
سو اس ملک میں اگر ہم نے سازشی اور مقبول بیانیہ بغیر سوچے سمجھے اپنانا ہے، اگر ہماری jurisprudenceبھی اسی پر چلنی ہے، ہمارے انتظامی فیصلے بھی حقائق کے برخلاف ہونا ہیں اور آئین میں بنیادی انسانی حقوق اور مفاد عامہ سے متعلق شقوں کی تشریح ایسے ہونا ہے جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا تو پھر ہمیں اس کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
اس قسم کے ایڈونچرکی قیمت چھ ارب ڈالر ہے ،اگر ہم یہ قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں تو بسم اللہ پوری دنیا کو بیوقوف اور خود کو عقل مند سمجھتے رہیں۔
(بشکریہ جنگ)