مصطفیٰ نواز کھوکھر کا بوجھ

حامد میر

پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہ استعفیٰ تو پچھلے سال آ جانا چاہئے تھا، مصطفیٰ نواز کھوکھر اس انتظار میں تھے کہ ان سے استعفیٰ مانگا جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ انہوں نے سیاسی وفاداری تبدیل کرلی۔ صبر کا مقابلہ تھا۔

جیسے ہی مصطفیٰ نواز کھوکھر سے استعفیٰ مانگا گیا تو انہوں نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر ہاں کہہ دی اور استعفیٰ مانگنے والوں کو بھی حیران کردیا۔ وجہ یہ ہے کہ کسی سینیٹر سے استعفیٰ مانگنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی پیپلز پارٹی نے ماضی میں اپنے ایک سینیٹر بابر اعوان سے استعفیٰ مانگا تھا۔ موصوف وکیل تھے، قانون کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے لہٰذا استعفیٰ مانگنے والوں کو اپنے پیچھے بھگاتے رہے۔

بطور سینیٹرجب ان کی مدت ختم ہونے والی تھی تو ایک دن استعفیٰ دے کر تحریک انصاف میں چلے گئے۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ پیپلز پارٹی رحمان ملک سے بھی خوش نہ تھی۔ ملک صاحب پارٹی قیادت سے پوچھے بغیر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرتے رہتے تھے اور بطور سینیٹر اپنے کنڈکٹ سے بھی پارٹی کو ناراض کر چکے تھے۔ ان سے استعفیٰ مانگا گیا تو انہوں نے مسکرا کر ٹال دیا۔ پھر بیمار ہوگئے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔

پارٹی قیادت کا خیال تھا کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر سے استعفیٰ مانگا گیا تو وہ بھی بابر اعوان اور رحمان ملک کی طرح لیت و لعل سے کام لیں گے۔ لیکن مصطفیٰ نواز تو شاید پہلے ہی تیار بیٹھے تھے، انہوں نے پیامبر سینیٹر فاروق نائیک کو نہ صرف ہاں کہہ دیا بلکہ سوشل میڈیا پر اپنے مستعفی ہونے کا خود ہی اعلان بھی کردیا۔

عام خیال یہ ہے کہ اس استعفے کی فوری وجہ مصطفیٰ کا وہ بیان ہے جو انہوں نے اپنے ایک ساتھی سینیٹر اعظم سواتی کے حق میں دیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں ایک خفیہ ادارے کے افسر نے فون کرکے بتایا ہے کہ اعظم سواتی کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو جعلی ہے لیکن میں نے مذکورہ افسر کو کہا ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہیں تو میں اپنے ساتھی کے ساتھ کھڑا ہوں۔

یہ بیان ایک فوری وجہ بنا جس کے بعد مصطفیٰ سے استعفیٰ مانگا گیا۔ پارٹی سے اختلاف کافی پرانا تھا۔ کچھ لوگ مصطفیٰ کو ان کے والد حاجی نواز کھوکھر اور چچا امتیاز کھوکھر (تاجی) کے طرز سیاست سے کافی مختلف پاتے ہیں۔

حاجی نواز کھوکھر قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر تھے اور آصف زرداری صاحب کی دوستی میں مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آئے۔ میں نے مشرف دور میں زرداری صاحب اور کھوکھر برادران کو احتساب عدالتوں میں اکٹھے کئی مقدمات بھگتتے دیکھا ہے اور شاید یہی وہ تعلق تھا جس کی وجہ سے مصطفیٰ کو سندھ سے پیپلز پارٹی نے اپنا سینیٹر بنایا۔

پیپلز پارٹی کی قیادت مصطفیٰ نواز کھوکھر میں صرف ایک وفادار خاندانی دوست تلاش کرتی رہی لیکن اس چنگاری کو نہ دیکھ پائی جسےبہت سے لوگ کافی عرصہ پہلے دیکھ چکے تھے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر جب اسلام آباد کے ایک اسکول میں پڑھتے تھے تو ایک دفعہ سالانہ چھٹیوں کے مسئلے پر اسکول کی انتظامیہ کے خلاف ساتھی طلبہ کے ساتھ مل کر مظاہرہ کرا دیا۔

اسلام آباد کالج فار بوائز میں پہنچے تو امتحانات وقت پر نہ کرانے کے مسئلے پر ہڑتال کرا دی۔ والد صاحب نے محسوس کیا کہ بیٹے کو لیڈر بننے کا شوق ہے۔ (بشکریہ روزنامہ جنگ) 

Comments are closed.