تم جیسے گئے ایسے بھی جاتانہیں کوئی

فہیم خان

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آ زادی صحافت کا مقصد اظہاررائے کو فروغ دینا ہے مگر آج بھی صحافی تاریک راہوں میں مارے جا رہے ہیں۔چند روزقبل پاکستانی نامور صحافی ارشد شریف کوبھی انہی تاریک راہوں میں ابدی نیند سلادیاگیا ۔

گوکہ صحا فت ایک پرخطر شعبہ ہے اور اس میں کام کرنا آسان نہیں ہے۔ صحافی نا صرف فیلڈ میں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی دھمکیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں انکو مارپیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہاں تک ان کو قتل بھی کردیا جاتا ہے۔

صحافت کی آزادی اور عوام تک بروقت درست معلومات کی فراہمی کے لیے قربانیاں دینے والے سیکڑوں صحافیوں میں سے ارشد شریف بھی ایک تھے ان کے جانے سے ان کے حامی اور مخالف سبھی کی آنکھوں میں آنسو ہیں کیونکہ پاکستان کی تحقیقاتی صحافت میں ان کا بڑا نام تھا۔

ان کے اندوہناک قتل نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں آزادی اظہارِ رائے پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ جس انداز سے ایک خوبصورت اور مسکراتے انسان کو خون میں نہلایاگیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ یہ ایک ایسا نقصان ہے جو ایک فیملی کے لئے تو ہے ہی لیکن مجموعی طور پر یہ پاکستانی صحافت کا ایسا نقصان ہے جس کا ازالہ کرنا ممکن نہیں۔

ارشد شریف ایک ایسے صحافی تھے جن کی پہچان ہی دستاویزات کے ساتھ پروگرام کرنے کی تھی انکا قتل بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔ ہمیں جلد یا بدیر ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہوں گے۔

ورنہ کس کی باری کب آجائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔کیونکہ بندو ق سے نکلنے والی گولی کی آنکھیں نہیں ہوتیں، وہ اندھی ہوتی ہے۔ وہ ہر سوچ، فکر، بیانیے کو پس پشت ڈال کرسانسیں چھین لیتی ہے ۔

اب ضرورت اس امرکی ہے کہ تنقید،گالم گلوچ اور پگڑیاں اچھالنے کے بجائے اس قتل کی آزادانہ تحقیقات کی جانب اپنا رخ موڑاجائے ۔ اوراس واقعہ پر خصوصی توجہ دی جائے کہ شفاف تحقیقات ہوں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ یہ نہ صرف پاکستان اور صحافتی برادری بلکہ آزادی اظہار رائے کے لئے بھی اہم ہوگا۔

ارشد شریف کی کینیا میں پولیس اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے شہادت کی خبر سامنے آنے کے بعد صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کے علاوہ ملک کی اہم سیاسی شخصیات کی جانب سے جہاں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے وہیں اس واقعے کی غیرجانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

لیکن ارشد شریف کے پراسرار قتل پر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریگی، یا ارشد شریف کے قاتل بھی اسی طرح آزاد پھرتے رہیں گے جیسے اس سے پہلے قتل ہونیوالے صحافیوں کے قاتل آزاد ہیں؟۔

Comments are closed.