سپریم کورٹ کے 4 ججز کے ازخود نوٹس کیس میں اختلافی نوٹ سامنے آگئے

53 / 100

 فوٹو: فائل

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس پر 9 رکنی لارجر بنچ ٹوٹ گیا ہے اور4 ججز اس سے الگ ہوگئے ہیں۔

لاجربنچ سے الگ ہونے والپے سپریم کورٹ کے 4 ججز کے ازخود نوٹس کیس میں اختلافی نوٹ سامنے آگئے ہیں جس میں رائے کااظہار کیاگیاہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نےاپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہےاوپن کورٹ میں دیاگیا حکم تحریری حکم نامےسےمطابقت نہیں رکھتا، ہمارےسامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جاسکتا۔

 اسمبلیاں توڑنے کی آئینی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیا اسمبلیاں آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ قانونی حیثیت پرسوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سےمتعلق ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ سامنے آنے والا معاملہ صوبائی عدالت کے سامنے موجودہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، چیف جسٹس نے مجھ سے معاملے پر سوالات مانگے، کیاوزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے؟ کیا کسی بنیاد پر وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت دیکھنا ناگزیر ہے، چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے ہیں جو یہ ہیں 

جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے میرے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں، اپنے خدشات کو منظر عام پر لانا چاہتا ہوں۔ نوٹ میں جسٹس منصورعلی شاہ نے بینچ میں شامل جج کی آڈیو لیکس کا تذکرہ کیا اور لکھا کہ جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ میں شامل جج پر اعتراض کیا، اور دیگر سینئر ججز کی بینچ میں عدم شمولیت پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ 2 سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کیلئے ضروری ہےکہ شفافیت برقرار رہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ الیکشن کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس ہائی کورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر اثرانداز ہوں گے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں، میری بینچ میں شمولیت سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ

جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ رات گئے میں نے ایک فائل وصول کی کہ معزز چیف جسٹس نے ایک از خود نوٹس لیا ہے۔

اپنے نوٹ میں ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے از خود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کے ایک حکم کی بنیاد پر لیا، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کا حکم فیڈرل سروس ٹریبونل کے خلاف غلام محمود ڈوگر کی اپیل پر دیا گیا تھا، غلام محمود ڈوگر کی اپیل اپنی ٹرانسفر کے حوالے سے تھی۔

Comments are closed.