ملک بھر میں کرکٹ ہوسکتی ہے تو انتخابات کیوں نہیں؟ سپریم کورٹ

کل ختم کرنے کی کوشش کریں گے، چیف جسٹس

51 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ پر ازخود نوٹس کیس،4 ججز بنچ سے الگ ،5 رکنی بینچ سماعت کررہاہے، سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ 4 معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے۔

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کے لیے عدالت سماعت جاری رکھے گی،اس بات کا تعین کرے گی کہ آئین کے تحت صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا کس کاآئنی اختیار ہے؟

 چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر سماعت کر رہے ہیں۔

اس سے قبل جسٹس اعجاز الاحسن جسٹس، مظاہر اکبر نقوی، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسسٹس اطہر من اللہ نے بینچ میں شامل ہونے سے معزرت کی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارو مدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں گے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے۔

 جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

دوران سماعت علی ظفر نے کہا کہ گورنر پنجاب نے نگران وزیراعلی کے لیے دونوں فریقین سے نام مانگے، ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلی کا انتخاب کیا، الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کر پولنگ کی تاریخ دینے کا کہا۔

علی ظفر نے کہا کہ گورنر نے جواب دیا انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیسے دیں؟ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا۔

علی ظفر نے کہا 90 دن کی آئینی مدت کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ کو حکم میں شامل ہونے سے پہلے پبلک ہونا غیر مناسب ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست بھی سن کرنمٹائی جائے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ گورنر کو کون مقرر کرتا ہے؟

 علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہو جانے میں فرق ہے۔

سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہےکیونکہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ہاہیکورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی۔

جاری ہے

بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو تاریخ بھی گورنر دے گا، چیف جسٹس نے کہا دوسری صورت ہوگی تو الیکشن کمیشن ایکٹ کرے گا. 

علی ظفر نے کہا گورنر تاریخ نہ دے تو سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت تاریخ دے گا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر تاریخ دیتے وقت صرف تاریخ دے یا اس پر کوئی غور و فکر کر سکتا ہے؟۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا الیکشن کمیشن راضی تو ہو لیکن وسائل نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا؟ 

بیرسٹر علی ظفر نے کہا اس کا مطلب یہ نہیں کہ 10 سال الیکشن نہ ہوں، گورنر کہتے ہیں ملک میں حالات ٹھیک نہیں امن اور امان کا مسئلہ ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا خدا کیلئے ملک بھر میں کرکٹ ہوسکتی ہے تو انتخابات کیوں نہیں؟ سپریم کورٹ سماعت کے دوران ریمارکس. 

جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انتخابات ہونا یا نا ہونا تو بعد کی بات ہے تاریخ تو پہلے دے دیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا انتخابات کی تاریخ کون دے گا یہ ہمارے لیے اہم ہے. 

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تو رشتہ ہونا ہے پھر تاریخ آئے گی، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسمبلیاں نہ ہوں تو آئین میں گورننس کا کوئی اور طریقہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ انتخابات کیلئے 90 دن کی حد مقرر کی گئی ہے، 90 دن میں الیکشن کا ہونا ضروری ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں مزید کہا ہے کہ صرف اعلان نہیں، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری انتخابات کیلئے انتظامات کرنا اور الیکشن کرانا ہے، آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں. 

انھوں نے کہا کہ آرٹیکل 218، 219 اور 222 الیکشن کمیشن کو انتخابات کی ذمہ داری دیتے ہیں، تمام ایگزیکٹو ادارے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا الیکشن کی تاریخ کے تعین کا سوال ہی عدالت کے سامنے ہے. 

جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے؟

علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیار ہونا چاہیے، جسٹس منیب اختر نے کہا آئین کو بالکل واضح ہونا چاہیے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں. 

چیف جسٹس نے کہا پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کر رکھی ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو ہر وقت انتخابات کیلئے تیار رہنا چاہیے، کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتی ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیں. 

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ صدر مشاورت سے تاریخ دیتا ہے اور گورنر اپنی مرضی سے؟، جس پر چیف جسٹس نے کہا گورنر کسی سے تو مشاورت کرتا ہی ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر گورنر ایک ہفتے میں الیکشن کا اعلان کر دے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟ انتخابات کا سارا کام تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے. 

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات کیلئے پورا شیڈول دیا گیا ہے کہ کس مرحلے کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر زلزلہ، جنگ یا سیلاب ہے تو تاریخ پر الیکشن ہو نہیں سکتے پھر کیا ہوگا؟ 

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جنگ اور سیلاب میں ہی الیکشن رک سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہائیکورٹ سے سٹاف مانگا تو انکار کر دیا گیا، فنڈز مانگنا، یہ سب انتخابات کے انتظامی جزو ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا اگر گورنر تاریخ نہیں دیتا تو صدر کتنے دن میں تاریخ دے سکتا ہے؟

انھوں نے کہا اگر کوئی آئینی ذمہ داری پوری نہیں ہو رہی تو عدالت جایا جا سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا میرے خیال میں گورنر اسمبلی توڑے یا نہ توڑے، اسمبلی ٹوٹنے کا اعلان کرتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا سال 1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے، اسمبلی نے ترمیم کر کے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا، پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو. 

جسٹس منیب نے کہا آئین میں گورنر کو اسمبلی توڑنے کا نہیں کہا گیا، 48 گھنٹے بعد اسمبلی ٹوٹنے کا کہا گیا ہے ، اسمبلیاں ختم ہو جائیں تو گورنر کا کیا کردار ہوگا، جس پر علی ظفر نے جواب دیا اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے میں گورنر کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا گورنر اسمبلی توڑے گا تو تاریخ دے گا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر گورنر اسمبلی توڑنے سے انکار نہیں کر سکتا تو ان کا تو اختیار نہیں، بظاہر دو صورتحال ہیں ، ایک میں گورنر اسمبلی تحلیل کر رہا ہے، دوسری میں نہیں. 

جسٹس جمال نے پھر استفسار کیا کہ اگر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48 گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہو گا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کیلئے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟ 

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے، اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں، گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا نوٹیفکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا۔

Comments are closed.