ْتحصیل مستوج ،32کلومیٹرسڑک کی اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر جاری

محبوب الرحمان تنولی

اسلام آباد : خیبر پختونخوا کے ضلع اپر چترال میں تین یونین کو نسلوں کی 39ہزار آبادی نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر بو نی سے تحصیل ہیڈ کوار ٹر مستوج تک 32کلو میٹر سڑک کی توسیع اور پختگی کے منصو بے پر کا م شروع کر دیا ہے ،مقامی آبادی 12ارب روپے کا یہ منصوبہ مرغی کے انڈے ، بھیڑ بکریاں اور مال مویشی فروخت کرنے کاارادہ رکھتی ہے۔

اس کار خیر کی غیر اعلانیہ قیادت پرو فیسر اسما عیل ولی کے ہاتھ ہے، انہوں نے پہلے کلو میٹر کو 20دیہات کے لوگوں میں تقسیم کیا ہر روز 400آ دمی کام پر آتے ہیں رضا کارانہ کام کرتے ہیں اپنا کھا نا اور پانی بھی گھر سے لا تے ہیں۔

قیا م پاکستان کو 73سال بیت گئے کسی حکومت نے ہمارے لئے ایک کلو میٹر پکی سڑک نہیں بنا ئی حا لانکہ مستوج اتنا اہم علا قہ ہے کہ انگریزوں نے 1904ء میں یہاں ٹیلیفون لائن بچھا ئی ، تار گھر قائم کیا ، مستوج کے لئے جھو لا پل تعمیر کرا یا۔

مقامی لوگ کہتے ہیں اس سڑک کا پہلا منصو بہ 1988ء میں آیا مگر کچھ برآمد نہ ہوا دوسرا منصو بہ 2006میں آیا نتیجہ کچھ نہیں نکلا تیسرا منصوبہ2017میں ایکنک (ECNEC) سے منظور ہوکر آیا راستے میں گم ہوا تنگ آمد بکار آمد لو گ خو د میدان میں آگئے۔

چترال کی دور افتادہ تحصیل مستوج کی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر حادثات معمول بن چکے ہیں،25سال سے زائد عرصہ گزر گیا مقامی آبادی کی طرف سے سڑک پختہ کرنے کے مطالبے پر کسی حکومت کسی ادارے نے کان نہ دھرے تو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سڑک کی تعمیرشروع کردی۔

بونی سے مستوج تک پہنچنے کیلئے مقامی آبادی کو جان ہتھیلی پر رکھنا پڑتی ہے، سڑک کنارے بونی، مستوج اور شندور تک سڑک کی تعمیر کا ایک بورڈ مقامی لوگوں کے صبر کا امتحان ہے، ٹھیکیدار کا نام مٹ چکا ہے لیکن اس بورڈ کے علاوہ زمین پر سڑک کی تعمیر کیلئے کوئی کام نہیں ہوسکا۔

طویل صبر کے بعد مقامی لوگ32کلو میٹر کی سڑک کی تعمیرکیلئے خود نکل آئے ہیں اپنی مدد آپ کے تحت سڑک کو ٹریفک کے قابل بنانے کیلئے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ، ٹریکٹر ٹرالیاں ، بیلچے ، کودالیں اور دیگر سامان کے ساتھ سڑک کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں، پٹرول، کھانے پینے کے لئے اخراجات پھر بھی امتحان سے کم نہیں۔

تحصیل مستوج کے سینکڑوں عوام نے پروفیسر ڈاکٹر محمد اسماعیل ولی کے قیادت میں مستو ج کا تیس کلومیٹر سڑک اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر شروع کی ہے۔ اس سے قبل مستوج پل کے قریب ایک محتصر تقریب ہوئی جس میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اسماعیل نے خطاب میں لوگوں کا حوصلہ بڑھایا۔

دعائیہ کلمات کے ساتھ اس مہم کا آغاز کیا گیا،مستوج کے سینکڑوں اپنے اپنے سامان کے ساتھ سڑک کی جانب جلوس کی شکل میں روانہ ہوئے تھے ،سڑک پر مقامی لوگ سارا دن کام کرتے ہیں اور مقامی لوگوں نے اپنی ایک ایک تنخواہ، کسی نے پنشن اور خواتین نے زیورات تک چندے میں دے دیئے ہیں۔

اس حوالے سے، زمینی حقائق ڈاٹ کام ، سے گفتگو کرتے ہوئے رفیع اللہ چترالی نے کہا کہ سینکڑوں لوگ سڑک کے کام پر لگے ہیں لیکن مجال ہے جو حکمرانو ں یا سڑکیں بنانے والے اداروں کو شرم آئی ہو۔ انھوں نے کہا کہ یہ لوگ اسلام آباد اور پشاور میں بیٹھ کر چترال کی خوبصورتی پر محض لیکچر دیتے ہیں۔

رفیع اللہ چترالی نے کہا کہ جب اپنے سیاستدانوں اور اداروں کی بے حسی دیکھتے ہیں تو نئی نسل طیش میں آ جاتی ہے، ہمارے مریض ، حاملہ خواتین اسپتال تک پہنچنے سے قبل مر جاتی ہیں۔ کوئی سخت بیمار ہو جائے یا کوئی کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو ہم اسے اسپتال تک نہیں پہنچا پاتے لیکن یہاں ہی سے ووٹ لے کر اسمبلی میں جانے والے عیش سے ادھرکے ہو جاتے ہیں۔

سابق تحصیل ناظم شہزادہ سکندر الملک نے کہا کہ پچیس سال پہلے اس سڑک کو ہم نے خود بنایا تھا اور ہم حکومتی اداروں کو چشم براہ تھے کہ شا ید وہ آکر ہمارا مدد کریں گے مگر پچھلے بیس سالوں میں کسی حکومت نے بھی اس سڑک پر توجہ نہیں دی اور ہم مجبور ہوکر اپنی مدد آپ کے تحت اس سڑک کو بنارہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم اپنے ہاتھوں سے سڑک بنا کر وزیر اعظم عمران خان کو دعوت دیں گے کہ آئیں اب افتتا ح کریں اور چترال کی خوبصورتی پر اورسیاحت پر لیکچر دے جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ جو سیاح چترال سے براستہ بونی ، مستوج شندور تک جاتے ہیں وہ بھی رک رک کر اس علاقے کی خوبصورتی کو بھی دیکھتے ہیں اورموت کاکنواں بھی قرار دیتے ہیں۔

ایک مقامی سماجی کارکن حاصل مراد کا کہنا ہے کہ یہ سڑک نہایت تنگ ہے اور کچی ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں بہت زیادہ کھڈے ہیں اور کئی گاڑیاں گہرے کھائی میں جا گرتی ہیں، ایک اور سماجی کارکن صوبیدار حاصل مراد نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہورہا ہے۔

پروفیسر اسماعیل کا کہنا ہے کہ سیاحت کے تمام مقامات تحصیل مستوج میں موجود ہیں اس خطے میں شندور، بروغل جیسی خوبصورت وادیاں واقع ہیں جہاں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں مگر وہ کئی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ علاقے کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی مدد آپ کے تحت اس سڑک کو بنائے۔

انہوں نے کہا کہ اس سڑک کی تعمیر کیلئے کئی لوگوں نے اپنی پوری تنخواہ، اور پنشن یافتہ لوگوں نے دو ماہ کی پنشن، خواتین نے اپنی زیورات بیچ کر اس میں چندہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم اس سڑک کی تعمیر کیلئے ایک ڈونر کانفرنس بھی بلائیں گے۔

اس علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک سماجی خاتون سائمہ ایوب نے کہا کہ بونی سے آگے ایک کلومیٹر سڑک بھی پحتہ نہیں ہوئی ہے۔ اس تنگ اور خطرناک سڑک پر گزرتے ہوئے کئی حادثات پیش آچکے ہیں اور حاص کر اکثر خواتین ہسپتال پہنچنے سے پہلے خواتین فوت ہوجاتی ہیں۔
حاص کر زچگی کے دوران ان خواتین کو اس سڑک پر ہسپتال پہنچانا نہایت خطرناک ہے۔

کالج کی ایک طالبہ بسمہ عزیز نے بھی سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ ا وہ جب اس سڑک پر کالج جاتی ہیں تو بہت ڈر لگتا ہے کیونکہ ہمارے سامنے کئی حادثات پیش آئے ہیں اور گاڑیاں سینکڑوں فٹ نیچے گہری کھائی میں جا گرتی ہیں، انھوں نے کہا کہ لوگ اب حکومتوں سے اپیلیں کرکر کے تھک چکے ہیں اسی لئے خود سڑک بنانے کیلئے نکلے ہیں۔

 

Comments are closed.