شہباز شریف کو ہٹایاگیا توحالات خراب ہوں گے،خواجہ آصف

فوٹو : فائل

سیالکوٹ(ویب ڈیسک )سابق وفاقی وزیر ،رہنما مسلم لیگ (ن) خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اگر شہباز شریف کو پی اے سی کی چیئرمین شپ سے ہٹایا گیا تو حالات خراب ہو جائیں گے۔

سیالکوٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی صحت کے بارے میں تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ شاید ہم کوئی رعایت چاہتے ہیں۔

ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق میاں صاحب کو دل کی تکلیف ہے، حکومت نواز شریف کی بیماری کو ایشو بنا کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، حکومت میں بیٹھے لوگ خود اپنی ساکھ خراب کر رہے ہیں ان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت 6 ڈاکٹروں کی رپورٹ پر عملدرآمد یقینی بنائے، نواز شریف کو دل کے اسپتال منتقل کیا جائے، وزیراعظم نے کل جو زبان استعمال کی اس سے ان کی جنجھلاہٹ نظر آرہی ہے، 6 مہینے کے دوران وزیراعظم عوام کو کوئی سہولت فراہم نہی کرسکے۔

انھوں نے کہا کہ وزیراعظم اور دیگر وزرا پی اے سی کے چیئرمین شہباز شریف کو ہٹانے کی باتیں کر رہے ہیں، اگر شہباز شریف کو پی اے سی کی چیئرمین شپ سے ہٹایا گیا تو حالات خراب ہو جائیں گے، ہم بھی سسٹم کو منجمد کر سکتے ہیں مگر اداروں کا نقصان نہیں چاہتے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان بتائیں کہ وہ 22 سال جو باتیں کرتے رہے کیا ان میں سے ایک پر بھی عمل کیا، عمران خان نے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر خود کشی کرنے کا اعلان کیا تھا، عمران خان 22 سال سے جو باتیں کررہے ہیں آج سوچ کر شرمندہ ہوتے ہوں گے۔

خواجہ آصف نے کہا پہلی دفعہ کوئی وزیراعظم خود آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے جا رہا ہے، اس وقت سسٹم کو حکمرانوں سے خطرہ ہے، عمران خان اور وزرا نے جو ماحول بنا دیا ہے اس سے بیورو کریسی کام کرنا چھوڑ دے گی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ہر وقت الیکشن کے لیے تیار ہیں، عمران خان کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ کافی ٹینشن کا شکار ہیں، عمران خان نے 6 ماہ کے دوران اپنے ارشادات کی نفی کے سوا کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو فوری پنجاب کارڈیالوجی میں داخل کروایا جائے، اگر پرسوں نواز شریف کی ضمانت ہوگئی تو پھر بیرون ملک سے علاج کروانے کا سوچیں گے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکمرانوں نے 6 ماہ کے دوران 1400 ارب کے نوٹ چھاپے، حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے خدشہ ہے کہ ہمارے دیرینہ دوست ممالک ناراض نا ہوجائیں۔

Comments are closed.