این آر اوز کی ماں؟
سلیم صافی
این آر او یا نیشنل ری کنسیلیشن آرڈیننس کا نام پاکستانی سیاست و صحافت میں اُس وقت داخل ہوا جب جنرل پرویز مشرف کئی سال تک ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو ختم کرنے میں ناکام رہے اور اُن کو یہ احساس ہوا کہ صرف قاف لیگ (جو اس وقت کی تحریک انصاف تھی) اور ایم کیو ایم کے سہارے وہ مزید اپنے اقتدار کو دوام نہیں دے سکتے تو انہوں نے اُن جماعتوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جنہیں وہ ابتدا میں ختم کرنا چاہتے تھے۔
اُنہوں نے نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے ثانی الذکر کا انتخاب کیا اور اُس کے ساتھ ڈیل کی کوششیں شروع کردیں۔ بےنظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے مابین ہونے والی ڈیلکا زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو ہوا کیونکہ اُن دونوں کے خلاف جو کیسز تھے وہ ختم کردیے گئے اور جواب میں پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو چند مزید سال کے لئے یقینی بنایا لیکن اِس ڈیل کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ بھی خود بخود ہموار ہوئی۔
بعد میں عدالت نے اُسے کالعدم بھی قرار دیا لیکن تب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اب این آر او پاکستانی سیاست اور صحافت میں باقاعدہ اصطلاح کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ مقتدر اداروں کی طرف سے کسی فرد یا جماعت کی غلط کاریوں اور جرم کو معاف رکھا جائے یا اُن سے صرفِ نظر کیا جائے اور ملزم ہونے کے باوجود ریاستی ادارے اُن کو سیاست میں آگے بڑھنے کا موقع دیں۔
اب عجیب تماشہ یہ ہے کہ اِن دنوں عمران خان صاحب اور اُن کے ترجمان تکرار کے ساتھ این آر او کا ذکر کررہے ہیں اور یہ الزام لگارہے ہیں کہ اپوزیشن اُن سے این آر او چاہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اتنی بےوقوف نہیں کہ وہ اُس شخص سے این آر او مانگیں جن کے پاس اُسے دینے کی صلاحیت ہے نہ اختیار۔ یقیناً پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی نمبر ون ترجیح یہی ہے لیکن عمران خان کس قانون کے تحت اُن کے کیسز ختم کر سکتے ہیں؟
درحقیقت اِس وقت عمران خان شوکت عزیز اور چوہدری شجاعت کی جگہ بیٹھے ہیں اور اُن دونوں کو نہ صرف این آر او سے شدید تکلیف تھی بلکہ اُس کے نتیجے میں اُن کی چھٹی بھی ہو گئی۔ خود عمران خان کو بھی معلوم ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو این آر او مل جانے کی صورت میں اُن کی چھٹی ہو جائے گی، اس لئے جب کبھی مقتدر اداروں اور اپوزیشن کے رابطے شروع ہو جاتے ہیں تو وہ این آر او، این آر او کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں نئے این آر او کے عمل سے اگر کوئی شخص سب سے زیادہ خوفزدہ ہے تو وہ خود عمران خان ہیں۔ تاہم عمران خان کے پروپیگنڈے کی صلاحیت پر ان کو داد دینی چاہئے کہ وہ پروپیگنڈہ کرکے اپوزیشن کو ایسی دفاعی پوزیشن پر لائے ہیں کہ جیسے وہ ان سے این آر او مانگ رہی ہے حالانکہ خود ان کا اقتدار ان کو ملنے والے مختلف النوع درجنوں این آر اوز کا مرہون منت ہے۔
اِس ملک میں اگر کوئی ٹریفک کا اشارہ توڑ دیتا ہے تو اُس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے لیکن لاڈلہ ہونے کے ناطے عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کیا، بجلی کے بل جلائے، کارکنوں سے پولیس کو پٹوایا، پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملے کروائے لیکن ان کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں ہوئی کیونکہ اُن کو این آر او ملا ہوا تھا۔ الیکشن سے قبل نیب اور دیگر اداروں کی طاقت کو استعمال کرکے مختلف الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی میں شامل کروانا ایک اور این آر او تھا۔
الیکشن سے قبل اُن کے مخالفین کی گرفتاریاں بھی اُن کو ملنے والے این آر او کی ایک قسم تھی۔ جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے صادق اور امین کا خطاب عنایت کیا جانا بھی این آر او تھا۔ زلفی بخاری جیسے اُن کے دستِ راست کے خلاف کیسز کو ختم کروانا اور ای سی ایل سے نام نکلوانا بھی این آر او کی ایک قسم ہے۔ افتخار محمد چوہدری کے بیٹے کی طرف سے عائد کردہ کیس کا سرد خانے کی نذر ہو جانا ایک اور این آر او ہے جو عمران خان کو ملا ہے۔
بی آر ٹی اور بلین ٹری جیسے اسکینڈلز کا فیصلہ نہ ہونا بھی این آر او ہے۔ فوج اور ایگر اداروں کے خلاف بدترین زبان کے استعمال کے سب سے زیادہ کلپس اور تحریریں عمران خان کی موجود ہیں اور اگر این آر او نہ ہو تو اُن کے خلاف مفتی کفایت اللہ سے سخت کیسز بن سکتے ہیں لیکن اِس معاملے میں بھی ان کو این آر او ملا ہوا ہے لیکن این آر اوز کی ماں کی حیثیت پارٹی فنڈنگ کیس ہے جو طاقتور حلقوں کے ایما پر الیکشن کمیشن نے عمران خان صاحب کو دے رکھا ہے۔
پارٹی فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کے کسی مخالف کی طرف سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی طرف سے 2014میں دائر کیا گیا لیکن چھ سال گزرنے کے باوجود فیصلہ نہیں ہورہا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکبر ایس بابر نے ہر طرح کے شواہد سامنے رکھ دیے ہیں لیکن گزشتہ الیکشن کمیشن نے این آر او دے کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ الیکشن تک کسی صورت اس کیس کا فیصلہ نہیں کرنا ۔ اس میں بنیادی کردار سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب کا تھا.
انھیں اس خدمت کے صلے میں پہلے سرکاری اعزاز سے نوازا گیا، پھر انہیں چیف الیکشن کمشنر بنانے کی کوشش کی گئی۔ صورت حال یہ ہے کہ اس کیس میں اب تک ستر سے زائد سماعتیں ہو چکی ہیں۔ حالانکہ برسوں سے وہ تمام دستاویزی اور وڈیو ثبوت الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہیں جو اکبر ایس بابر نے یا پھر قومی اداروں نے فراہم کیے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جو مواد موجود ہے اُس کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کے لئے عمران خان کے حق میں فیصلہ دینا ممکن نہیں. کیونکہ معاملہ پھر اعلیٰ عدالتوں میں جائے گا.
میرٹ پر فیصلہ ہو جانے کی صورت میں عمران خان اور مالیات کے ذمہ دار افراد کے بچنے کا امکان کم نظر آتا ہے۔ اس لئے سرے سے فیصلہ ہی نہیں کیا جارہا۔میری معلومات کے مطابق فنڈز خرچ کرنے میں بھی بڑی گڑبڑ ہوئی ہے کیونکہ اکبر ایس بابر جس دور کا ذکر کررہے ہیں، اس دور میں پی ٹی آئی کے کئی رہنمائوں نے بنی گالہ کے ارد گرد جائیدادیں خریدی ہیں اور زیادہ تر وہی تھے جن کا مالیات سے کوئی واسطہ تھا۔
میری معلومات کے مطابق حکومت کی طرف سے موجودہ الیکشن کمیشن قائم رکھنے پر بھرپور کام ہورہا ہے اور یہ محنت کی جارہی ہے کہ نئے چیف الیکشن کمشنر، جسٹس سردار رضا اور نئے سیکرٹری بابر یعقوب بنے رہیں تاہم دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن عمران خان کو ملنے والا این آر او برقرار رکھتا ہے یا پھر میرٹ اور قانون کے مطابق جلد فیصلہ کرکے حقیقی معنوں میں الیکشن کمیشن ہونے کا ثبوت دیتا ہے؟
(بشکریہ روزنامہ جنگ)