عاشقِ رسولﷺ کا سفرِ آخرت
انصار-عباسی
اگرچہ ایک طرف علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کی موت نے لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کو افسردہ کردیا تو دوسری طرف اُن کی نماز جنازہ کے مناظر دیکھ کر دل خوش ہوا۔ مرحوم کی وفات پر صرف اُن کی جماعت کے پیروکار ہی دکھی نہیں تھے بلکہ ہر اسلام پسند دکھی تھا اور یہی حقیقت اُن کے جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تھی۔ اِس کی وجہ صرف ایک تھی۔ دینِ اسلام کی نسبت اور عشقِ رسولﷺ۔ اُن کی زندگی میں علامہ مرحوم کی حکمتِ عملی اور طریقۂ کار سے ہزار اختلاف کیا جا سکتا تھا اور کیا جاتا بھی رہا لیکن اِس میں کسی کو ذرہ برابر شک نہیں کہ مرحوم کا مقصد عظیم تھا، خالص تھا۔
جیسا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب اور مفتی عدنان کاکا خیل صاحب نے اپنے سوشل میڈیا پیغامات میں لکھا۔ تقی صاحب نے لکھا کہ علامہ کی وفات پر دِلی صدمہ ہوا، ختمِ نبوتؐ اور ناموسِ رسولﷺ پر وہ ایک توانا آواز تھے۔ کاکا خیل صاحب نے لکھا کہ علامہ کے سانحۂ انتقال نے سب کو غمزدہ کر دیا، اُن کا خمیر عشقِ رسولﷺ سے گندھا ہوا تھا اور بلاشبہ وہ ملک میں ناموسِ رسالتؐ اور تحفظ ختمِ نبوتؐ کی سب سے گرجدار اور بے خوف آواز تھے۔
یہی وجہ تھی کہ مختلف مکاتبِ فکر کے علماء اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ جنازے میں شرکت کرنے والے لاکھوں میں تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سارا پاکستان اُمڈ آیا ہے۔ مینارِ پاکستان کا وسیع میدان، اُس کے اردگرد کا سارا علاقہ، سڑکیں، جس طرف نظر دوڑائیں لوگ ہی لوگ نظر آ رہے تھے۔ بلاشبہ مرحوم علامہ خادم حسین رضوی، جنہوں نے زندگی میں ختمِ نبوتؐ اور ناموسِ رسالتؐ کے عظیم مقاصد کے لئے خوب پہرا دیا.
اِس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والے عوام کے سمندر کے ذریعے تمام دنیا کو پیغام مل گیا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اِس دھرتی میں اور مسلمانوں کے لئے ختمِ نبوتؐ اور ناموسِ رسالتؐ وہ ریڈلائنز ہیں جن کو کراس کرنے کی کسی صورت بھی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ علامہ رخصت ہو گئے لیکن اُن کی تاریخ ساز نمازِجنازہ کے ذریعے یہ پیغام مل گیا کہ تمام تر روشن خیالی کی تحریکوں، مغرب کے دبائو، ڈالرز سے چلنے والی این جی اوز کے پروپیگنڈہ اور سیکولرازم، لبرل ازم کے نعروں کے باوجود یہاں کے مسلمان اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں آج بھی اسلام کی نسبت کو ہی اپنے لئے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، اُن کی اسلام کے لئے خدمات کو قبول اور اُن کی کوتاہیوں، غلطیوں، گناہوں کو معاف فرمائے، آمین!
علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کے انتقال نے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو بھی ایک کر دیا۔ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف سب نے علامہ کی موت پر افسوس کا اظہار کیا لیکن افسوس کہ لبرلز اور سیکولرز کا ایک طبقہ ایسی شدت پسندی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور اِس قدر نفرت اور بغض کی بدبو سے تر ہے کہ اعتراض کر اُٹھا کہ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف کیوں علامہ مرحوم کی موت پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں؟
اِس طبقہ کو اِس بات پر بھی بہت تکلیف ہوئی کہ لاکھوں افراد نے جنازہ میں شرکت کی۔ کچھ کو تو یہ بھی دکھ ہوا کہ دوسرے مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کیوں علامہ کے انتقال پر اتنے افسردہ ہیں اور کیوں سب جنازے میں شرکت کر رہے ہیں؟ ایک صحافی دوست سے بات ہوئی تو کہنے لگا کہ لبرلز اور سیکولرز کا یہ طبقہ لا علاج ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس طبقے سمیت ہم سب کو ہدایت دے، آمین!
میری دعا ہے کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی اِس موقع پر یہ احساس ہوا ہو کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان اور یہاں کے رہنے والے مسلمانوں سے گزشتہ 73سال سے بہت دھوکہ ہو چکا بلکہ اگر سچ بولا جائے تو یہ صرف عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے اِس عہد کہ اِس ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہوگا، سے روگردانی ہے جس کی سزا ہمیں مختلف صورتوں میں مل رہی ہے اور ہمیں ایک کے بعد ایک کرائسز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کب تک ہماری بڑی سیاسی جماعتیں مغرب کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کے قیام کے مقصد سے روگردانی کرتی رہیں گی؟
(بشکریہ روزنامہ جنگ)