تھر میں چرواہوں کے ساتھ

0

منوج گینانی

یہ بھیریو بھیل نامی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں صبح 6 بجے 11 سالہ جے رام بھیل نے دو چپاتی اور ایک کپ چائے کا ناشتہ کرنے کے لیے والدہ کے پاس بیٹھنے سے قبل ہاتھ اور چہرے کو دھویا ہے۔

ناشتہ کرنے کے بعد اس نے کچھ پرانے کپڑوں اور سامان سے ایک پانی کی بوتل اور چھوٹی اسٹک تلاش کی۔ یہ تیاری اسکول جانے کے لیے نہیں ہورہی بلکہ وہ اونٹوں کو جمع کرکے آس پاس کے گاؤں میں چرانے جا رہا ہے اور اس کا یہ معمول گزشتہ 3 برس سے ہے۔

بھیریو بھیل ضلع عمر کوٹ کے صحرائی علاقوں کی ٹیلوں کے درمیان واقع ہے اور یہ گاؤں 250 گھروں پر مشتمل ہے۔ جے رام اور اس کے 2 ساتھی جیتمال اور مول چند گاؤں سے 17 اونٹ جمع کرتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ گھر سے جو پانی رکھتے ہیں وہ اتنا ضرور ہونا چاہیے جو شام تک ان کے ساتھ رہے۔

جے رام کہتے ہیں کہ ’مجھے جانوروں سے محبت ہے خاص کر بکروں اور دنبوں سے، یہی وجہ ہے کہ مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کے ریوڑ کو صحرا میں چرانا اچھا لگتا ہے‘۔

جے رام کا ایک 12 سالہ دوست جیتمال جو بھیریو بھیل میں چوتھی جماعت کا طالب علم ہے وہ گھر میں ہی رہنا چاہتا تھا مگر صرف اپنے دوستوں کے ساتھ رہنے کے لیے ان کے ساتھ جانور چرانے جاتا ہے۔

جے رام اور جیتمل اپنے 14 سالہ دوست مول چند کے ہمراہ اونٹوں کو چراتے ہیں اور مل کر ہر ماہ 12 ہزار روپے کماتے ہیں۔ انہیں یہ پیسے گاؤں کے رہائشی اور مویشیوں کے مالک سے ملتے ہیں جسے وہ آپس میں اپنے اپنے گھروں کا خرچہ چلانے کے لیے برابر تقسیم کرتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ جو وہ کماتے ہیں اس کا کیا کرتے ہیں تو جیتمال کہتے ہیں کہ ’کچھ ہے ہی نہیں جس پر پیسہ خرچ کیا جائے۔ میں اپنی جیب خرچی کے لیے 200 روپے لیتا ہوں اور بقیہ رقم اپنے والد کو دے دیتا ہوں جس سے وہ اس دکان کا قرض ادا کرتے ہیں جہاں سے ہم کھانے پینے کی اشیاء، سودا، بیجیں اور دیگر چیزیں ادھار لیتے ہیں‘۔

گاؤں والوں کی بڑی تعداد اس طرح کی دکانوں سے مشکل وقت میں اس وقت تک ادھار لیتے ہیں جب تک فصل کی کٹائی نہیں ہوتی جو عام طور پر اپریل سے اگست تک ہوتی ہے۔

صحرا میں روزگار سے متعلق بات کی جائے تو بس چند ہی مواقع موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ چرواہا بننے پر مجبور ہیں۔ بھیریو بھیل کے 80 سے زائد افراد اسی پیشے سے وابستہ ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تھر مویشیوں کا ایک بہت بڑا مرکز ہے جو صحرا کے علاقے میں بنیادی ذریعہ معاش ہے۔

تھرپارکر اور عمر کوٹ میں محکمہ لائیو اسٹاک کے مطابق ضلع تھرپارکر میں مویشیوں کی تعداد تقریباً 70 سے 80 لاکھ جبکہ ضلع عمر کوٹ میں یہ تعداد 10 لاکھ تک ہے۔ جو لوگ چھوٹے جانور یعنی بکرے اور دنبے چراتے ہیں وہ ماہانہ تقریباً 2 سے 5 ہزار تک کماسکتے ہیں، جبکہ جو افراد بڑے جانور یعنی گائے اور اونٹ چراتے ہیں وہ 4 سے 6 ہزار ماہانہ تک کمانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ زیادہ تر چرواہوں کے پاس اپنے جانور نہیں ہیں اس لیے وہ گاؤں والوں کے جانور کو چراتے ہیں، اور جن چند لوگوں کے پاس اپنے جانور ہیں ان کی تعداد 3 یا 5 سے زیادہ نہیں ہے۔

بارشوں کی صورت ہونے والی زراعت یا پھر مزدوری کو تھر میں آمدنی کا ثانوی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ موسمی تبدیلی کی وجہ سے بارش کے معمولی میں ہونے والی تبدیلی کے سبب کبھی تو فصل بہت اچھی ہوجاتی ہے، لیکن بعض اوقات اس میں کمی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ممکن ہے کہ کسانوں کو فصل کی کٹائی کے لیے ایک سال اچھا مل جائے لیکن پھر اگلے ہی سال خشک سالی کے سبب قحط کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کولھی اور بھیل برادری کے چراوہے پانی، چارے اور ذریعہ معاش کی تلاش میں ہر سال سندھ کے دریائی علاقوں میں نقل مکانی کرتے ہیں۔

چرواہوں کی ایک مخصوص طرزِ زندگی ہے جو دیگر گاؤں سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ عام طور پر گاؤں کے دیگر مردوں کے مقابلے میں دیر سے شادی کرتے ہیں۔ اگر گاؤں کا ایک جوان عام طور پر 15 سے 18 سال کی عمر میں شادی کرتا ہے تو یہ 20 سے 25 سال کی عمر میں شادی کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا زیادہ تر وقت چرواہی اور جانوروں کی دیکھ بھال میں ہی خرچ ہوجاتا ہے۔

حال ہی میں ہونے والی طویل موسلا دھار بارشوں نے صحرائے تھر کو سبزے میں بدل دیا ہے۔ صحرا میں چلتے ہوئے جہاں چرواہے اپنے جانوروں کو چراتے ہیں ادھر میری ملاقات بھیریو بھیل کے ایک اور چرواہے سے ہوئی جس کے پاس 200 سے زائد بکرے اور 15 گائے تھیں جو ان کے جوڑوں کے ساتھ گھوماتا ہے۔

بھیریو بھیل کے 28 سالہ من سکھ کہتے ہیں کہ ’میں صبح جلدی اٹھ جاتا ہوں، آگ جلاتا ہوں جس سے مچھر بھاگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد چائے کے لیے بکری کا دودھ لیتا ہوں اور پھر اپنا سارا دن مویشیوں کو صحرا میں چلا کر گزارتا ہوں۔ میں انہیں کنویں سے پانی پلاتا ہوں اور پھر شام میں گاؤں لوٹ جاتا ہوں‘۔

بھیریو بھیل گاؤں میں موجود چراگاہ کے دیگر حصوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے مجھے سیکڑوں سے زائد گائے، بکرے، اونٹ اور بھیڑ ملے۔ جہاں ان جانوروں کی دیکھ بھال کی جاتی تھی وہ مقامی طور پر ’گاوچار زمین‘ کے نام سے مشہور ہے۔

اس دوران میری ملاقات اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ پاون بھیل سے بھی ہوئی جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ 100 سے زائد بکروں کی بھال کرتا ہے۔ پاون نے چراگاہ سے خشک لکڑیاں جمع کیں، بکری کا دودھ نکالا اور آگ جلا کر چائے بنائی۔ وہ اپنے ساتھ پلاسٹک کی تھیلی میں چینی اور پتی لے کر آیا تھا۔

اکثر اوقات دن میں چرواہے کھانا کھانے کے لیے گھر آجاتے ہیں اور پھر شام تک شفٹ پوری کرنے کے لیے واپس صحرا میں لوٹ جاتے ہیں۔ وہ عام طور پر کھانا ساتھ لے کر نہیں جاتے ہیں البتہ پانی کی بوتلیں کپڑے میں لپیٹ کر لے جاتے ہیں تاکہ وہ ٹھنڈی رہیں۔ مگر وہ ہمیشہ چینی اور پتی اپنے ساتھ لے کر نکلتے ہیں کیونکہ چائے کی ضرورت ہوتی ہے اور جب وہ گھر سے دُور ہوتے ہیں تو یہ واحد چیز ان کے ساتھ ہوتی ہے۔

تھر میں یہ مانا جاتا ہے کہ اگر کوئی چرواہا کسی کو چائے کی پیشکش کرے تو وہ خوش قسمت ہوتا ہے، کیونکہ ہر ایک کو یہاں کی چائے خالص دودھ، لکڑی کی سوندی خوشبو اور مزیدار ذائقے کی وجہ سے بہت پسند ہوتی ہے۔ یہ چرواہے زیادہ تر چائے کے 2 کپ پیتے ہیں اور اگر انہیں اس کی زیادہ ضرورت محسوس ہو تو وہ اس کے ساتھ تیسرا کپ بھی پی لیتے ہیں۔

میں نے پاون کی چائے کی پیشکش قبول کرلی۔ چائے کی چسکیاں بھرتے ہوئے ہم مٹی کے ایک ایسے ٹیلے پر بیٹھے تھے جس کو بارش کے بعد سبزے نے اپنی لپٹ میں لے لیا تھا۔ یہاں پرندوں کے پروں کی سرسراہٹ، چڑیوں کے چہچہانے یا پھر گائے کے گلے میں بندھی گھنٹی کی آواز کے علاوہ کوئی اور آواز نہیں تھی اور اس سے مکمل سکون کا احساس ہورہا تھا۔

پاون مجھے بتاتا ہے کہ ہمیں پورا وقت چوکس رہنا پڑتا ہے کیونکہ یہ جانور کسی بھی وقت کاشتکاری کی جگہ جاسکتے ہیں، اور اگر ایسا ہوجائے تو وہ کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کے باعث زمیندار جرمانہ عائد کرسکتا ہے‘۔

پاون نے بتایا کہ ’اگر جانور ان زمینوں کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں تو ہم مختلف قسم کی آوازیں نکال کر انہیں ان کے راستے پر واپس بلا لیتے ہیں‘۔

میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی اسکول گیا ہے؟ اس نے کہا کہ ’میں بھی تعلیم یافتہ ہونا چاہتا تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے گاؤں میں صرف پرائمری تک اسکول ہے اور ہائی اسکول 35 کلو میٹر دُور عمرکوٹ شہر میں ہے لہٰذا روزانہ عمرکوٹ جانا یا وہاں جاکر تعلیم کے حصول کے لیے رہنا ہماری گنجائش میں نہیں تھا‘۔

جانوروں کو چرانے اور چائے بنانے کے علاوہ یہ چرواہے لوک گیتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جب یہ کسی درخت کے سائے میں جمع ہوتے ہیں تو وہ ہمیشہ گنگناتے ہوئے چھوٹی چھوٹی ڈنڈیوں کو توڑتے رہتے ہیں، یا پھر درختوں پر چڑھتے اور مقامی کھیل کھیلتے ہیں جنہیں ’ونجھوتی اور پیپری‘ کہا جاتا ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر بہت زیادہ چلنا ہی شاید وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے ان کی جسامت دبلی پتلی ہوتی ہے، اور اسی وجہ سے انہیں رات میں اچھی نیند لینے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔

اس سال زبردست مون سون کے باعث صحرا میں مویشیوں کے لیے خوب چارہ جمع ہوا، اور یہ چرواہے امید کرتے ہیں کہ چارہ آئندہ مون سون تک کے لیے دستیاب رہے گا۔ لیکن یہ اسی صورت میں ہوگا کہ اگر فصلوں اور گھاس پر ٹڈی دل حملہ نہ کردیں۔

(بشکریہ ڈان اخبار۔ یہ مضمون 4اکتوبر 2020کو شائع ہوا)

Leave A Reply

Your email address will not be published.