اوڑھ لے ہر مسلمان بیٹی حجاب
شبانہ ایاز
حجاب محض برقعہ یا چادر کا نام نہیں ،
اور یہ محض عورت سے منسوب نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام اخلاق اور نظام عفت و عصمت ہے جو کہ مردوں کو بھی اتنا ہی محفو ظ رکھتا ہے جتنا عورت کو۔ حجاب کے تقاضے مردوں کے لئے بھی ہیں اور عورتوں کے لئے بھی۔
اسلام جہاں عورت سے خود کو ڈھانپنے کا مطالبہ کرتا ہے وہیں مردوں کو بھی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ یہی ہے دین اسلام میں حیا اور حجاب کا تصور۔
نئی صدی کے آغاز سے ہی اسلام دشمن قوتوں نے میڈیا کے زور پر حجاب کے خلاف متعصبانہ رویہ روا رکھا ہوا ہے پہلے حجاب کو مسلم خواتین کی پسماندگی کی علامت قرار دیا جاتا تھا کہ برقع پوش خاتون کو عصر حاضر کا شعور نہیں، پھر حجاب کو ظلم اور جبر کی علامت کے طور پر مشہور کیا گیا۔ پردے کو مرد کی بالادستی، جبر کا استعارہ سمجھا گیا۔ اگلے مرحلے میں حجاب کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا کہ یہ دراصل سیاسی اسلام کے پیروکاروں کا معاملہ ہے جو کہ خود بھی انتہا پسندی کے پیروکار ہیں اور انہیں پردے جیسی انتہا پسندی مطلوب ہے۔
مغرب کی حجاب دشمنی دراصل اسلام دشمنی ہےاور اس کے دہرے معیار کا واضح ثبوت ہے ۔ مغرب نے عسکری یلغار کے ساتھ تہذیبی دہشت گردی بھی ہمارے معاشرے پر مسلط کر دی ہے اور آج مختلف ذرائع سے حجاب کو ہدف بنایا جارہا ہے ۔
مسلم خواتین نے حجاب کے حق کے حصول کے لیے قربانیاں دی ہیں ۔مغرب مسلم خواتین کے حجاب کے حوالے سے نفرت، تعصب اور عدم برداشت کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ بھری عدالت میں مروا شیربینی کا حجاب کی وجہ سے قتل ، مغرب کی حجاب دشمنی پوری دنیا پر واضح کر دیتا ہے۔
یوم حجاب کی تاریخ یہ ھے کہ ستمبر 2003 میں فرانس نے جب حجاب پر پابندی کے لیے قانون سازی کی تو امت مسلمہ کے علمائے کرام نے علامہ یوسف القرضاوی کی قیادت میں پہلی مرتبہ 4 ستمبر 2004 کو عالمی یوم حجاب منانے کا اعلان کیا۔ پاکستان سے محترم قاضی حسین احمد اس حجاب تحریک کے علمبردار بنے۔
حقیقت یہ ھے کہ حجاب حکم خداوندی ، مسلم خواتین کا فخر اور پاکیزہ معاشرے کی بنیاد ہے۔ قرآن اور حدیث میں پردے کے واضح احکامات موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس حکم کو ہمارے معاشرے میں متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں اکثر برائیوں اور خرابیوں کی ایک وجہ خواتین کی حجاب سے دوری بھی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں مسلم خواتین کو واضح الفاظ میں پردے کا حکم دیا ہے ۔ (سورہ احزاب 59 ۔سورہ النور31)
حجاب میں رہتے ہوئے جب باحجاب خاتون کو کوئی مشکل نہیں پیش آتی تو معاشرے کو خصوصا مغرب زدہ ذہنیت کو کیا تکلیف اور پریشانی لاحق ہوتی ہے.
شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی حجاب کو اپنی شاعری میں موضوع بنایا ہے۔
مسلم خواتین کو اپنی فارسی شاعری میں جناب فاطمہ رضی اللہ تعالی کی پیروی کی ترغیب دیتے ہوئے کہا ہے کہ۔
بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر
کے در آغوش شبیرے بگیری
ترجمہ ۔اے مسلمان عورت تو جناب فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ( بتول) کی پیروی کر اور ان کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو حجاب میں چھپا کر رکھ تا کہ تیری گود میں جناب امام حسین (شبیر) رضی اللہ تعالی عنہ جیسے اعلی اور بلند کردار انسان پرورش پاسکیں۔
حجاب عورت کی مرضی نہیں حکم ربی ہے۔ نماز کی طرح حجاب کرنا بھی عورت پر فرض ہے۔اسلام کا عورت کوزیب و زینت شوہر کے علاوہ تمام غیر مردوں سے چھپانے کا حکم دراصل معاشرے کو بگاڑ سے بچانے اور خاندانی نظام کو محفوظ بنانے کیلئے ھے۔
۔معاشرے میں حیا اور حجاب کے تصور کو قائم کئے بغیر عورت کے حقوق کے تحفظ کی باتیں خام خیالی ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی بے حیائی ،طلاق کی شرح میں اضافہ اور بچوں، بچیوں سے زیادتی کے واقعات بے حجابی و بے حیائ ہی کا شاخسانہ ہیں۔