کورونا اور بیرون ملک پاکستانی

0

محمد مبشر انوار

پاکستانی افرادی قوت دہائیوں سے دیار غیر مقیم نہ صرف اپنے لئے روزگار کما رہی ہے بلکہ وطن عزیز کی معیشت میں زر مبادلہ کے قیمتی ذخائر بھیج کر، پاکستان کی معاشی رگوں میں خون کی مانند گردش کرتی رہی ہے اور آج بھی گردش کر رہی ہے۔ کسی بھی قسم کے بحران میں تارکین وطن ہروال دستہ بن کر وطن عزیز کو درپیش بحران میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر،اس بحران سے نپٹنے میں مددگار بنتے ہیں۔ تارکین وطن کے اس کردار کی ہر حکومت معترف رہی ہے اور ہمیشہ ان تارکین وطن کو اپنا اثاثہ سمجھتی رہی ہے۔

تارکین وطن کی اکثریت 70کی دہائی سے،مشرق وسطی میں قیام پذیر،پیٹرو ڈالر کی کمائی سے نہ صرف اپنے خاندانوں بلکہ ملکی معیشت کو رواں رکھے ہوئے ہے۔آج پوری دنیا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے برسر پیکار ہے اور ہر حکومت اپنی بھر پور سعی کر رہی ہے کہ کسی طرح اس وائرس سے اپنے شہریوں کی جان بچائی جائے،اپنے معاشرے کو اس سے پاک کیا جائے مگر کورونا وائرس دن بدن مسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے اور اس وقت تک(تا دم تحریر) تقریباً 4.1ملین افراد اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں ۱ور 280,454افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں،یہ تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ابھی تک اس بیماری کا مستند علاج دریافت نہیں ہو سکا، اس سے بھی زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ یہ و با انتہائی آسانی کے ساتھ ایک سے دوسرے شخص کو لگ جاتی ہے اور برق رفتاری سے بڑھتی جاتی ہے۔ایک طرف حکومتیں اپنے شہریوں کو بچانے کی کوششوں میں مشغول ہیں تو دوسری طرف بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں کو واپس لانے کے جتن کر رہی ہیں کہ کسی طرح دنیا بھر میں بکھرے اپنے شہریوں کو سمیٹ کر ان کے آبائی وطن لایا جا سکے۔

یہاں ایک واضح فرق نظرآتا ہے کہ مہذب اور ترقی یافتہ اقوام کے افراد ایک نظم و ضبط اور ترتیب کے ساتھ اپنی حکومتوں کی ترجیحات کے عین مطابق سفری سہولیات سے فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں،کسی قسم کا ہیجان یا نفسا نفسی کے مظاہر دیکھنے کو نہیں ملتے۔ دوسری طرف ہم پاکستانیوں کی حالت اس سے قطعی مختلف ہے کہ ایک طرف ہم اسلام کے پیر وکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف اس مشکل صورتحال میں ہر صورت اپنے گھروں کو سفر کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔

ہمارے دہرے معیار کا مظاہرہ یہاں بھی واضح ہو رہا ہے کہ ایک طرف ووہان،چین میں پھنسے ہوئے وہ پاکستانی طلباء تھے،جنہیں ایک طبقہ سیاست کے نام پر ہمدردیاں سمیٹنے کی خاطر پاکستان بلوانے پر زور دے رہا تھا تو دوسری طرف حکومت وقت سرکار دوعالم ؐکی حدیث مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے ان طلباء کو وہیں رکنے کی تلقین کر رہی تھی۔

یہی صورتحال اس وقت الٹ گئی جب ابتداء میں ایران سے آنے والے زائرین کی بدولت ملک میں کرونا وائرس داخل ہو گیا،اب سیاستدان (بالخصوص شیعہ و ایران مخالف)ان پاکستانیوں کو واپس لانے کے خلاف بول کر (قرنطینہ میں نا کافی سہولیات کے باعث)سیاست چمکا رہی تھی اور حکومت کا مؤقف تھا کہ ایران سے زائرین کو واپس لانا ان کی مجبوری تھی۔

یہی صورتحال سعودی عرب میں پھنسے ہوئے زائرین کی تھی،سیاحتی ویزہ پر اپنوں کے پاس آئے ہوئے پاکستانیوں کی تھی،ایسے تارکین کی تھی جو سعودیہ سے چھٹی پر پاکستان جانے کے خواہشمند تھے یا پاکستان سے واپس اپنی نوکریوں پر آنا چاہ رہے تھے،ایسے پاکستانی جو اپنی اننگز کھیل کر مستقل طور پر پاکستان جانے کے خواہشمند ہیں،کچھ پاکستانی جو یہاں ”سرکاری مہمان خانوں“میں ہیں،سزا ختم ہونے پر واپس جانا چاہتے ہیں مگر کورونا لاک ڈاؤن کے باعث،سعودی عرب میں پھنس چکے تھے۔

سعودی حکوت کی طرف سے پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ خصوصی مراعات کا اعلان کیا جاتا رہا ہے،لہذا اس مشکل صورتحال کو دیکھتے ہوئے،سعودی حکومت نے بتدریج پہلے پاکستانی زائرین کی سہولت کے لئے پی آئی اے کو محدود آپریشن کرنے کی اجازت دی تا کہ زائرین کو واپس لے جایا جا سکے۔ یہ آپریشن کامیابی سے مکمل تو ہو گیا مگر پاکستان میں کورونا کے مریضوں میں ایک طرف اضافہ ہوا تو دوسری طرف حکومتی اقدامات کی قلعی بری طرح آشکار ہو گئی اور تیسری طرف سعودیہ مخالف لابی نے شور و غوغا کرنا شروع کردیا۔

حکومتی انتظانات کے حوالے سے تمام تر دعوے ریت کی دیوار ثابت ہو رہے ہیں اور بیرون ملک سے پاکستان جانے والوں کو جس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،وہ پاکستانی اہلکاروں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔صرف سعودی عرب سے زائرین کی واپسی ہی اصل مسئلہ نہیں بلکہ اب تو پاکستان کے لئے مسائل کا ایک انبار منتظر ہے کہ اندرون ملک رہنے والوں کے اپنے مسائل کیا کم تھے کہ اب متحدہ عرب امارات سے تقریباً چالیس ہزار کے قریب محنت کشوں کی پہلی کھیپ،کورونا وائرس کے باعث اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے اور وطن و اپس جانے کی منتظر ہے۔

اپنے گھر میں تو بندہ کسی نہ کسی طرح بے روزگار رہ کر بھی گذارا کر لیتا ہے مگر دیار غیر میں ان حالات میں بیروزگار ہونا اور پھر ان ممالک میں ٹھہرنا انتہائی مشکل امر ہے لہذا ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح سب سے پہلے وطن پہنچ جائے اور جو کچھ پاس موجود ہے،وہ پاکستان اپنوں کے پاس لے جائے۔ یہی صورتحال سعودی عرب میں بھی ہے کہ دیہاڑی داروں کی اکثریت گھروں میں مقید ہے،روزگار کے آثار ابھی تک غیر یقینی ہیں اور یوں گھر بیٹھ کر کتنی دیر صورتحال کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.

یہ سوال ہر تارک وطن کو درپیش ہے۔ سفارتخانوں پر بوجھ ضرورت سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے،کمیونٹی ممبرز اپنی مقدور بھراستطاعت و اپنے طور پر متاثرہ لوگوں کی مدد میں مشغول ہیں مگر کب تک؟سعودی حکومت زائرین کی واپسی کے بعد اب سیاحتی ویزہ پر آئے پاکستانیوں کو،سفارت خانہ کے تعاون سے، واپسی کے انتظامات میں سہولت فراہم کر رہی ہے لیکن اس میں ایک تلخ حقیقت بھی شامل ہے کہ پاکستان سے آنے والے جہاز خالی آتے ہیں اور یہاں سے مسافروں کو لے کر واپس جاتے ہیں۔

اصولا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ متاثرین کو ریلیف دیا جاتا اور حکومت پاکستان یا قومی ائیر لائن اپنے کرایوں میں کمی کرتی مگر افسوس حکومت اور قومی ائیر لائن کے لئے یہ ممکن نہیں رہا بلکہ مسافروں /متاثرین سے دگنا کرایہ وصول کیا گیا۔ یوں سعودی عرب میں مقیم پاکستانی اپنے وطن جانے کے قابل ہو سکے ہیں۔ حکومت پاکستان مسلسل اعلانات کر رہی ہے،اقدامات کر رہی ہے مگر افسوس کہ ان اعلانات اور اقدامات پر عمل درآمد کروانے والے انتہائی سنگدلی و بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تارکین وطن کو حیلے بہانے لوٹنے کے لئے بے قرار ہیں۔

فلائیٹ لینڈ نگ سے گھر تک پہنچنے کے مراحل میں کتنی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے،بیان سے باہر ہے۔ جو ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں،انسان کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے کہ ہمارے ملک کی ریاستی مشینری میں انسانیت کب پروان چڑھے گی؟کب ریاستی مشینری لوٹنے کی بجائے خدمت خلق کے جذبے سے عوام کے لئے سہولتیں فراہم کرے گی؟کورونا ٹیسٹ کے لئے دو/تین دن انتظار تو معمول بن چکا اور اس کا نتیجہ کبھی مثبت کبھی منفی،جس کے پیچھے کیا ملی بھگت ہے،سب آشکار ہو چکا کہ اسطرح ہوٹل میں رہنے کا بل بڑھتا جائے گا۔

قرنطینہ میں رہنے کے حالات دگر گوں،ایمبولینس میں حفاظتی آلات نا پید،یہ سب پاکستانیوں نے ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر رکھا ہے۔ میرے نزدیک تو بہتر یہی ہے کہ جو جہاں ہے وہی رہے جب تک حالات نارمل نہیں ہوتے ماسوائے ان متاثرین کے،جن کے لئے دیار غیر میں رہنا اب ممکن نہیں رہا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.