ہسپتال براستہ جیل
شمشادمانگٹ
پاکستان کے اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان اس وقت بیک وقت احتساب اور اعصاب کی جنگ جاری ہے۔میاں نوازشریف جب اپنے اختیارات کا بھرپور مزہ لے رہے تھے عین اس وقت ان پر پانامہ پیپرز آسمانی بجلی کی طرح گِرے تھے۔میاں نوازشریف اقتدار میں ہی تھے اور پانامہ پیپرز کی صفائیاں وہ الگ دیتے تھے جبکہ انکے بچے الگ کہانی بیان کرتے تھے،چنانچہ سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی بنا دی گئی۔
میاں نوازشریف اور انکے ساتھیوں کو یقین تھا کہ وہ صورتحال کو ”ہرصورت“ سنبھال لیں گے کیونکہ ماضی میں انہوں نے اس سے بھی زیادہ مشکل اور گھمبیر حالات میں خود کو سنبھال لیا تھا لیکن اس بار”سنبھالا“ لینے کیلئے وہ جس”ڈان“ کے پاس بھی گئے اس نے معذوری کا اظہار کردیا۔یہ صورتحال میاں نوازشریف کیلئے نئی تھی کیونکہ انکی سیاسی تاریخ میں کوئی بھی ایسا سیاسی مسئلہ نہیں ہے جسکے حل کیلئے اللہ نے”ڈان“ پیدا نہ کیا ہو۔اپنے مسائل کے حل اور گرداب سے نکلنے کیلئے میاں نوازشریف غیرملکی اور ملکی سطح کے ہر”ڈان“ سے نہ صرف تعلقات بلکہ ہر وقت رابطے رکھتے ہیں۔
جنرل پرویزمشرف دور میں جب انہیں طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں عمر قید کی سزا اور نااہلی کی سزا سنائی گئی تھی تو وہ اس سزا سے چھٹکارے کیلئے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کو بروئے کار لانے میں کامیاب رہے تھے مگر اس مرتبہ امریکی حکام اور سعودی حکام کی سوچ اور بدلے ہوئے تیور دیکھ کر میاں نوازشریف کافی پریشان ہیں۔
میاں نوازشریف کو یقین تھا کہ وہ جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹس میں سرخرو ہونے کیلئے دیسی ساخت کے ”ڈان“ استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ’دیسی ڈان“ بھی میاں نوازشریف کیلئے کام کرنے سے انکاری ہوگئے اور انہوں نے میاں نوازشریف کو نوشتہ دیوار پڑھنے کی نصیحت کر ڈالی۔
یہی وجہ تھی کہ میاں نوازشریف کو دل کا عارضہ لاحق ہوگیا اور انہیں علاج کیلئے لندن جانا پڑا۔میاں نوازشریف کے خاندانی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ انکا بائی پاس ہوا ہے۔حالانکہ میاں نوازشریف پانامہ پیپرز سے جان چھڑانے کیلئے عدالت اور جے آئی ٹی کو”بائی پاس“ کرنے کی شدید آرزو رکھتے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور انہیں خود ہی”بائی پاس“ کے عمل سے گزرنا پڑا۔
جب میاں نوازشریف کا بائی پاس ہوا عین انہی دنوں محترمہ کلثوم نواز شریف کے گلے کے کینسر نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔پانامہ پیپرز کا معاملہ آہستہ آہستہ پیچیدہ ہوتا چلا گیا اور اس طرح محترمہ کلثوم نواز کا کینسر بھی پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا گیا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ آج ہم میں نہیں ہیں۔پانامہ سکینڈل سے حسین نواز بھی بری طرح متاثر ہوئے اور انکا وزن بھی کافی گِر گیا۔پانامہ پیپرز نے کیپٹن صفدر کی صحت کو بھی متاثر کیا اور جب گرفتاریاں ہوئیں تو انکے معدے کے مسائل کھل کر سامنے آنا شروع ہوئے۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کا خیال تھا کہ پانامہ پیپرز یا کوئی دوسرا سکینڈل انکے دروازے پر دستک نہیں دے گا کیونکہ وہ یہ تاثر بھی دیتے تھے کہ میاں نوازشریف جس”خلائی مخلوق“ سے لڑ رہے ہیں اس سے انکے بہترین تعلقات ہیں۔
آشیانہ سکینڈل میں گرفتاری سے دو دن پہلے موصوف نے اپنے کارِ خاص رانا مشہود سے یہ بیان بھی دلوایا کہ نیب کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور یہ کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوچکی ہے۔ٹھیک دو دن بعد سابق خادم اعلیٰ کرپشن کے الزامات میں دھر لئے گئے اور اب نیب نے ایک اور مقدمہ بھی درج کرلیا ہے اور اس میں بھی گرفتاری ڈال دی گئی۔
میاں شہبازشریف کی گرفتاری کے بعد پہلی بار انہوں نے کھل کر تسلیم کیا ہے کہ میں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوں اور نیب نے مجھے گرفتارکرکے”جرمِ عظیم“کیا ہے۔
یہ ایک فریق کی بیماریاں ہیں جو اس جنگ کے دوران لاحق ہوئیں جبکہ دوسری طرف سپریم کورٹ کے جسٹس عظمت سعید کو بھی اسی کیس کی سماعت کے دوران دل کے ”معاملات“ کو درست کرنے کیلئے ہسپتال سے رجوع کرنا پڑا تھا،اس کے علاوہ پراسرار طریقے سے انکے گھر پر لاہور میں فائرنگ کا واقعہ بھی ہوا اور اب چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی دل نے ”تنگ“ کرنا شروع کردیا تھا اور انہیں بروقت ڈاکٹروں سے علاج کیلئے رجوع کرنا پڑا اور اس کا فائدہ بھی ہوا۔
اعلیٰ عدالتیں بھی اس کا اظہار کرچکی ہیں کہ جس کیخلاف بھی سماعت کا آغاز کرتے ہیں اسے پراسرار بیماریاں گھیر لیتی ہیں اور وہ علاج کیلئے بیرون ملک روانگی کا سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں اعصاب کی جنگ اور احتساب کی جنگ ساتھ ساتھ جاری ہے۔اعصابی جنگیں جیتنے کے ماہر آصف علی زرداری بھی قانون کا گھیرا توڑنے کیلئے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ملکر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن شریف برادران نے آصف علی زرداری کے ساتھ ملکر جدوجہد کرنے سے اس لئے انکار کردیا ہے کہ آصف علی زرداری کے ساتھ سے انکے لئے مسائل بھی بڑھیں گے اور بیماریاں بھی بڑھیں گی اور مسائل اور بیماریوں کا مقابلہ الگ الگ رہ کر کیا جائے۔
سرکردہ اپوزیشن رہنماؤں کیلئے اس وقت دوہی راستے نظر آرہے ہیں،ایک راستہ جیل کا ہے اور دوسرا راستہ ہسپتال کا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن رہنما ہسپتال براستہ جیل جانے میں دلچسپی رکھتے ہوں کیونکہ جیل براستہ ہسپتال زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے اور اس بار جیلوں میں”زیتون کا تیل اور شہد“ بھی لیجانا ناممکن ہوچکا ہے۔پچھلی بار آصف علی زرداری نے اپنی ساری جیل پمز کے وارڈ میں بھگتی تھی اور مردِ حر کا لقب لیکر نکلے تھے لیکن اب کی بار جیل بھگتنے کے لئے ماضی جیسی سہولتیں نہیں مل پائیں گی۔اب ایسا زمانہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اچانک وی آئی پی اسیروں کی حالت دیکھنے خود جیل یا ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔