نیا چورن بیچنے کی ضرورت
عزیراحمدخان
اقتدار کے ایوانوں میں آئے دن کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے آتی ہے، کبھی کہاجاتا ہے کہ کل ایسی گفتگو کی جائے گی جس سے آپ انگشت بدانداں ہوجائیں گے پھر اس کوملتوی کیاجاتاہے اس کے بعد نئی اختراع تلاش کی جاتی ہے، کبھی منی لانڈرنگ سامنے آتی ہے،کبھی جعلی اکائونٹس ، کہیں فالودے ،ریڑھی والے اور عام مزدور کے اکائونٹس کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن پکڑی جاتی ہے اس پرحیف یہ کہ سابق صدرمملکت آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ یہ اکائونٹ میں نے نہیں میرے کسی منیجرنے کھولے ہوں گے۔
بھلاایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ سارے اکائونٹس میرے نام پر ہوں اگر ایسا ہوجائے توایف بی آر والے تنگ کریں گے یہ بات جرم کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اب جبکہ حکومت کے سودن نزدیک ترین پہنچ رہے ہیں جو ٹارگٹ کے لئے متعین کیاتھا وہ وقت ختم ہونے کو آرہاہے ان سودنوں کے دوران بہت ساری چوریاں سامنے آئیں اربوں روپے کاسراغ لگایاگیا خوب میڈیا پرچرچہ ہوا ڈھنڈورا پیٹا گیا، اسی دوران قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی خوب پراگندا ماحول دیکھنے میں آیا مگر کسی کے ماتھے پر ایک جُوں تک نہ رینگی۔
بات دراصل یہ ہے کہ ابھی تک حکومت نے یہ کہاکہ اُس کو کرپشن کے حوالے سے اربوں کھربوں کاسراغ مل چکا ہے یا پھر ایک بات تقریباً ہر روز کسی نہ کسی وزیر کے منہ سے دوہرائی جاتی ہے کہ ہم ماضی کابھگت رہے ہیں سابقہ حکومت نے خزانہ ہمیں خالی دیا ہے جو بھی قرضے ہیں وہ بھی تحفے میں ملے ہیں ۔بات دراصل یہ ہے کہ ماضی کاراگ الاپنے سے کیا حاصل ہوگادیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں ہے اور بااختیار ہے ۔برآمدگی کیا ہوئی ہے ،پیسہ کتناخزانے میں آیا ہے،قرضوں کے کیاحالات ہیں، صرف الزام تراشیوں سے تو مسائل حل نہیں ہونگے ۔
حکومت نے جو بھی ملکی ترقی اور معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے اگر منصوبے بنارکھے ہیں تو انہیں عملی طورپر سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ دراصل اس وقت ملک کو جو سب سے بڑامسئلہ درپیش ہے وہ معاشی مضبوطی کا ہے ۔وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ جب انہوں نے عنان اقتدارسنبھالاتو وہ تمام ان چیزوں کی امپورٹ پر پابندی عائد کردیتے جو چیزیں ملک میں تیار ہوتی ہیں پھرسونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ جیسے جیسے حکومت کے دن آگے کی جانب بڑھتے جارہے ہیں اسی تیزی سے مہنگائی بھی آسمان کو چھورہی ہے جب حکومت سبسڈی نہیں دے گی صنعت کاروں کوایڈجسٹ نہیں کرے گی توکیاخاک پیداوار ہوگی صنعتیں بند ہوناشروع ہونگی تو لامحالہ معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
ہرچیز مہنگی ہورہی ہے ڈالر جوچنددنوں کے لئے قابو ہواتھا وہ پھربے قابو ہوتاجارہاہے اگر چین پاکستان سے بائیس ارب کاکاروبارکرتاہے تو اس کے جواب میں پاکستان دوارب کاکاروبارکرتاہے اس اعتبارسے ہمارے ملک میں صرف دو ارب آئے جب تک ہم اپنی صنعت کومضبوط نہیں بنائیں گے تو اسی طرح غیرملکی قرضوں کے تلے دبے رہیں گے ۔جہاں تک پاکستان اور چین کااپنی اپنی کرنسی میں کاروبارکرنے کامعاملہ ہے تواس کے بھی اتنے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہونگے۔
بجلی مہنگی ،گیس مہنگی، پٹرولیم مصنوعات مہنگی، اشیائے خورردونوش مہنگی ،غرض کہ ہرچیز کی قیمت آسمان پرباتیں کررہی ہے کیاحکومت کوئی ایسے باعمل ادارے فریم کرسکتی ہے جو ان چیزوں کو کنٹرول کرے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہرشخص کو زندہ رہنے کے لئے روزانہ تین نہیں تو کم ازکم دووقت تو کھاناکھانا ہوتا ہے ہماری فوڈ اتھارٹی کیا کررہی ہے کیا وہ اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے گزشتہ دنوں ہی کراچی میں دوبچے مضرصحت کھاناکھانے سے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ حکومت نے ان کے خلاف کیاکارروائی کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اس کے علاوہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشی طورپرمضبوطی کے لئے ہمیں اپنی ملکی پیداوار کو بڑھانا ہوگا اور جوچیزیںملک میں پیدا ہورہی ہیں انہیں قطعی طورپر باہرسے منگوانے پرپابندی عائد ہونی چاہیے اور ساتھ ساتھ مہنگائی کو بھی کنٹرول کرنا ترجیحی بنیادوں پرشامل ہوگا تو پھرملک آگے ترقی کرسکے گا ۔
لہٰذا ایسے میں حکومت احتساب ،منی لانڈرنگ ،جعلی اکائونٹس کا جوچورن بیچ رہی ہے اس کو بے شک نہ چھوڑے مگر آگے مستقبل کے لئے بھی لائحہ عمل طے کرے ۔ماضی میں رہنے سے صرف نقصان ہی نقصان ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔