(گیارہ نکاتی لارا لپّہ (پارٹ ۔ ون
شمشاد مانگٹ
عمران خان نے اپنی طویل سیاسی جدوجہد کے ذریعے آخر کار اپنا ووٹ بینک بنا ہی لیا ہے۔ عمران خان 20 سال تک کوشش کرتے رہے کہ پاکستانی ووٹر مغربی طرز جمہوریت سے متاثر ہوکر بہترین اور ایماندار امیدواروں کا چناؤ کریں لیکن ہر الیکشن میں عمران خان کے امیدوار ”بھاری اکثریت “ سے ضمانتیں ضبط کرواتے رہے۔ 2013 ء کے الیکشن میں بھی عمران خان نے تقریباً 70 فیصد ایسے امیدوار میدان میں اتارے جو بذات خود ہر الیکشن میں کسی نہ کسی امیدوار کے دستر خوان سے پیٹ بھر کر کھانا کھانا اپنی ”سیاسی فریضہ “سمجھتے تھے لیکن عمران خان نے انہیں پارٹی ٹکٹ دے کر مشکل صورتحال سے دو چار کردیا اور ایسے امیدواروں کی اکثریت ایک بار پھر بری طرح شکست کھا گئی۔
آئندہ عام انتخابات اب سر پر آچکے ہیں اور عمران خان کی سیاست اور سوچ نے جو انگڑائی لی ہے وہ بتارہی ہے کہ وہ اب پاکستانی طرز سیاست کو تقریباً قبول کر چکے ہیں۔ عمران خان نے یہ بھی تسلیم کرلیا ہے کہ اگر پاکستانی نظام کے اندر سیاست کرنی ہے تو پھر اللہ کے ولی تلاش کرنا اور پھر انہیں الیکشن کیلئے تیار کرنا ناممکن ہے۔ کیونکہ اللہ کے ولیوں کے گھر جب حکمران آتے ہیں تو وہ دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں چنانچہ عمران خان نے یہ سوچ ہی ترک کردی ہے اور اپنی پارٹی کو جیتنے والے ”گھوڑوں“ سے آراستہ کرلیا ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ اس اصولِ سیاست سے بھی متفق ہوگئے ہیں کہ جلسوں کی سیاست اور ہوتی ہے اور الیکشن کی سیاست قطعی مختلف ہوتی ہے ۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کے روز اصل کام ہوتا ہے اور قومی اسمبلی کے ایک امیدوار کو ہر پولنگ اسٹیشن کی نگرانی کیلئے کم از کم 2500 بندے درکار ہوتے ہیں لہٰذا الیکشن کی سائنس کہتی ہے کہ یہ 2500 بندے اپنے گھروں سے کھانا تو ”لنچ بکس “ میں نہیں لائیں گے اور امیدواروں کو الیکشن کے نتائج سے بے پرواہ ہوکر کم از کم اس روز دس ہزار ”مسکینوں“ کی روٹی پکانا پڑے گی تب جاکر الیکشن میں امیدوار بننے کا ”کفارہ“ ادا ہوپائے گا۔ اس کے علاوہ ہر پولنگ اسٹیشن پر مخالف امیدواروں کے غنڈوں کو خوف زدہ کرنے کیلئے بھی ”مسلح غنڈوں“ کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور یہ خرچہ الگ ہے۔
اس کے علاوہ عمران خان نے پاکستان کی سیاست سے یہ بھی سیکھ لیا ہے کہ عام انتخابات سے قبل جتنے وعدے کئے جاسکتے ہیں وہ کئے جائیں اور لاہور کے حالیہ جلسہء عام میں انہوں نے 11 نکاتی ”لارالپّہ“ جو پیش کیا ہے وہ عوام کے دل جیتنے اور انہیں امید دینے کی ایک کوشش ہے۔ وگرنہ جو 11 نکاتی وعدوں کی فہرست انہوں نے 20 کروڑ عوام کے سامنے پیش کی ہے اس کیلئے پانچ سال کا عرصہ ناکافی ہے۔ اس ایجنڈے پر اگر دیانتداری سے کام کیا جائے تو کم از کم 20 سال میں صورتحال میں پچاس فیصد تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان نے یکساں نظام تعلیم کا نعرہ دیا ہے اور یہ نعرہ ایک ایسے ملک میں دیا گیا ہے جہاں پر نجی تعلیمی اداروں نے شہروں سے نکل کر اب دیہاتوں کے گلی محلوں میں اپنی جڑیں پھیلا دی ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کی من مانیوں کو ہماری عدالتیں کنٹرول کرنے میں تاحال ناکام ہے اور نجی تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک اتنا ہی مضبوط ہے جتنا ہماری پولیس میں کرپشن کا نیٹ ورک موجود ہے۔ لہٰذا اقتدار ملنے کی صورت میں اگر عمران خان اور انکی ٹیم سرکاری سکولوں کی حالت ہی بہتر بنانے میں پچاس فیصد بھی کامیاب ہوگئی تو عوام ان کے اس وعدے کو تسلیم کرلیں گے۔ تحریک انصاف نے غریب عوام کیلئے مفت علاج کا نعرہ بھی لگا دیا ہے۔ علاج معالجے کی صورتحال یہ ہے کہ جن علاقوں میں سرکاری ہسپتال موجود ہیں وہاں نہ تو پورا عملہ موجود ہے اور نہ ہی شہریوں کیلئے ادویات موجود ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں دو سرکاری ہسپتال پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے مریضوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ اسلام آباد جیسے ماڈل شہر میں طبّی سہولیات کیلئے کم از کم چار ہسپتال مزید درکار ہیں اور پاکستان کے تقریباً تمام اضلاع میں طبّی سہولیات کی عدم دستیابی ایک کھلا چیلنج ہے۔ عمران خان کیلئے مفت علاج کی سہولت سے زیادہ بڑا کام ہر ضلع کے بڑے ہسپتالوں میں تمام سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ پورا پنجاب ایمرجنسی میں لاہور اور اسلام آباد کی طرف بھاگتا ہے اور اس شعبہ میں بھی اب نجی ہسپتالوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے پورے پاکستان میں اب مروجہ اصول یہ ہے کہ جس کے پاس جتنے وسائل ہوتے ہیں اتنی مہنگی طبّی سہولیات کو وہ حاصل کرلیتا ہے اور اس کے باوجود نجی ہسپتالوں کا کرپٹ مافیااپنی فیس کیلئے ان کی جانوں سے کھیل جاتا ہے لہٰذا مفت طبّی سہولتوں کی فراہمی آئندہ الیکشن کا بہت بڑا جھوٹ ہے۔ تحریک انصاف اگر ہر ضلع کے سرکاری ہسپتال کو فعال کرنے میں کامیاب ہوگئی تو عوام سمجھیں گے کہ تبدیلی آگئی ہے۔
عمران خان کا تیسرا ”لارا“ ٹیکس کا یکساں نظام اور اداروں کو مضبوط کرنا ہے اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کو پہلا بڑا کام پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے کرنا ہوگا کیونکہ گزشتہ 70 سال میں اگر پارلیمنٹ کو آمروں نے بار بار پامال کیا ہے تو خود سیاستدانوں نے بھی اس کی ”آبرو ریزی“ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ موجودہ پارلیمنٹ اس کی سب سے بہترین مثال ہے کیونکہ اس پارلیمنٹ نے میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنایا لیکن وہ پارلیمنٹ میں آنا اپنی توہین خیال کرتے رہے۔ اسی طرح اسی پارلیمنٹ نے عمران خان کو ”معتبر“ کیا لیکن انہوں نے کچھ وقت اس سے استعفے دے کر گزار دیا اور کچھ وقت اس میں نہ جاکر بسر کردیا اور ایک دو بار انہوں نے اسی پارلیمنٹ پر لعنت بھی بھیجی۔ ہمارا ہر ادارہ اس وقت دیمک زدہ ہے۔ عدلیہ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد لاکھوں میں جاچکی ہے۔ انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے اثاثوں میں اضافے کیلئے تگ و دو کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
مقننہ سوئی ہوئی ہے اور ایسے قوانین جو حکمرانوں کے مفادات کیلئے ہوں انہیں پلک جھپکنے میں منظور کروالیا جاتا ہے اور جو عوامی مفادات سے متعلق ہوں انہیں منظور کروانے کیلئے کبھی ”کورم“ ہی پورا نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف نے 50 فیصد بھی اداروں کے احترام اور مضبوطی کو یقینی بنا دیا تو عوام ان کی باتون پر آئندہ بھی یقین کرلیں گے مگر فی الحال نظر یہ آتا ہے کہ ہنوز دلّی دور است ۔ اور جہاں تک ٹیکسوں کا نظام یکساں کرنے کا دعویٰ ہے تو یہ بھی یکساں نظام تعلیم کے کھوکھلے نعرے کی طرح ہے کیونکہ ہمیشہ سے پاکستان کے عوام ہی ٹیکس دیتے نظر آرہے ہیں اور وائٹ کالر کرائم مافیا ٹیکس چھپانے میں کامیاب رہا ہے۔ پوری دنیا میں آمدن پر ٹیکس لاگو کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں غریب مزدور سگریٹ خریدتا ہے تو ٹیکس دیتا ہے اور سگریٹ سلگانے کیلئے ماچس پر بھی ٹیکس دیتا ہے اور یہ دونوں مل کر دھواں نکالتے ہیں تو غریب مزدور کا خون جلتا ہے تحریک انصاف نے اگر آمدن پر ٹیکس کا نظام نافذ کردیا تو عوام کو بہت بڑا ریلیف مل جائے گا۔ مگر تحریک انصاف ٹیکسوں کے نفاذ میں پچھلے ریکارڈ بھی توڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ (جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)