افغانستان ، صدارتی انتخابات مکمل، نتائج کااعلان 17اکتوبر
اسلام آباد(ویب ڈیسک)افغانستان میں صدارتی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہو گیا ابتدائی نتائج کا اعلان 17 اکتوبر کو متوقع ہے۔
افغانستان میں ووٹنگ صبح 7 بجے شروع ہوئی جو سہ پہر 3 بجے تک ختم ہونی تھی تاہم افغان الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کا دورانیہ دو گھنٹے بڑھایا جس کے بعد پولنگ 5 بجے تک جاری رہی۔
ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے،صدارتی انتخابات میں افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمتیار سمیت 14 امیدوار وں کے درمیان مقابلہ ہے۔
صدارتی امیدواروں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار نے کابل میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ صدارتی انتخابات کیلئے 96 لاکھ ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جن کیلئے 5 ہزار 373 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے۔
انتخابی عمل کے خلاف طالبان کی دھمکیوں کے باعث سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے اور افغان دارالحکومت کابل میں ہر طرح کے ٹرکوں کا داخلہ بند تھا۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدارتی انتخابات میں ووٹر ٹرن آو¿ٹ کم رہا ہے اور ماضی کے مقابلے میں خواتین کی کم تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تاہم خواتین نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔
افغان صدارتی انتخابات دو مرحلوں میں ہوتا ہے، اگر کوئی امیدوار پہلے مرحلے میں 51 فیصد ووٹ نہ لے سکے تو دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
افغان صدارتی انتخابات کے موقع پر بھی طالبان کی جانب سے حملوں کا سلسلہ جاری رہا اور کئی شہروں میں پولنگ اسٹیشنز پر حملے کیے گئے۔
افغان حکام کے مطابق زیادہ تر کو افغان سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنایا۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 5 سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور 37 شہری زخمی ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ چوتھے صدارتی انتخابات ہیں جبکہ اس سے قبل 2 بار حامد کرزئی اور ایک بار اشرف غنی صدرارتی انتخابات میں جیت چکے ہیں۔
اِدھر افغان طالبان نے عوام کی جانب سے صدارتی انتخابات کو مسترد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ کابل انتظامیہ کے دھوکے پر مبنی الیکشن میں عوام کی عدم شرکت نے ثابت کردیا کہ کسی دوسرے غیرملکی فریق کی فرمائش اور جارحیت قابل قبول نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام کی اکثریت نے الیکشن سے بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے ناکام بنایا، محدود شہروں میں چند سرکاری ملازمین، تنخواہ دار اور چند افراد کے علاوہ عوام کی اکثریت نے بیرونی مسلط کردہ انتخابات کو رد کیا ہے۔