صادق سنجرانی کا کیا قصور؟

0

عثمان خان

پاکستان کا پسماندہ صوبہ بلوچستان اور اس کا پسماندہ ضلع چاغی کا ایک ہونہار سپوت جو نہ صرف نام کا ہی صادق نہیں بلکہ کردار کا بھی صادق نکلا۔ ایوان بالا میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے جمہوری انداز سے چیئرمین سینیٹ جیسے آئینی عہدہ کا حقدار ٹھہرنے والا اپنوں کی زخموں پر مرہم رکھنے اور صوبے کے غریب اور مفلوک الحالی کا شکار لوگوں کی زندگیوں کو بدلنے کا تہیہ لیکر قومی افق پر آیاُ ۔

لیکن صادق سنجرانی شروع دن سے ہی روایتی اور موروثی سیاستدانوں کی آنکھوں میں کاٹنے کی طرح کھٹکتکا ہے کل کے دشمن آج دوست ہوئے تو پہلاوار بھی اس پر کیا۔ گذشتہ سینٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کو انکی اصلیت دکھانے کے لئے ہی سنجرانی کو سامنے لائے تھے ۔

ہائے رے سیاست جب ماضی کے مخالف آج ایک ہوئے تو نئے پاکستان کی عمارت میں  دراڑ ڈالنے کےلئے اپنی ذمہ داری بطریق احسن سرانجام دینے والے چیئرمین سینیٹ کو ایک سال بعد ہی ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔

اپنی صفوں میں توڑ پھوڑ کی اطلاعات اور انجانے خوف کے باعث اپوزیشن جماعتوں نے وقت سے پہلے ہی اخلاقی برتری اور ہم جیت گئے ہم جیت گئے کا راگ الاپنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ یہ اپویشن کا انجانا خوف ہے یا چیئرمین سینیٹ کو دباؤ میں لانے کی ناکام کوشش کہ ارکان کو بلا بلا کر حاضری لگانے اور وفاداریاں برقرار رکھنے کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

  دوسری جانب پارلیمان کے کمیٹی روم نمر ایک میں کاغذی اکثریت شو کرانے اور میڈیا کے سامنے بڑے بڑے دعوے کرکے خود کو ایک نمبر ثابت کرنے کی جھوٹی تسلیاں بھی دے رہے ہیں۔

حاضری شیٹ کی بنیاد پر اخلاقی برتری اور اخلاقی فتح کے شادیانے بجانے پر ہی اکتفا نہ کرنے والی اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ سے استعفی کا مطالبہ بھی کر رکھا ہے کیونکہ متحدہ اپوزیشن کو ڈر ہے کہ خفیہ رائے شماری میں انکے ارکان سینیٹ کہیں پارٹی ڈسپلن کی بجائے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک نا کہہ دیں۔

استعفی کے مطالبے میں ملک کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بحیثیت جماعت اور ان کے سربراہاں جو خود کو جمہوری اخلاقی اور سیاسی اقدار پر پورا اترنے پر پھولے نہیں سماتے لیکن ان جماعتوں کے رہنماؤں کے رویوں پر نظر ڈالی جائے تو نوازشریف پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف سنگین معاملے پر چارج شیٹ لیکر نہ صرف عدالت گئے بلکہ اخلاقی طور پر عہدہ چھوڑنے پر زور بھی دیتے رہے۔

  اسی طرح  اہم کیس میں نواز شریف سزایافتہ ہو کر جیل میں چلے گئے لیکن اپنی اقتدار کی ہوس نے کرسی سے چپکے رہنے کی یہ منطق پیش کی کہ وہ عدالت کا فیصلہ قبول کریں گے۔

اگر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا معاملہ دیکھیں تو نہ کوئی چارج شیٹ ،نہ کوئی تنگی ،نہ کوئی مسئلہ ،لیکن  اپوزیشن قائدین کے نزدیک شاید سب سے اہم کام چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے ٹھہرا ۔۔حزب اختلاف کے قائدین کا یہ انوکھا فیصلہ ایسے ہی ہے جیسے پاکستانی اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچا کر امریکہ سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔

بالکل اسی طرز پر اپوزیشن عمران خان کی نفرت اور غصے میں سینیٹ کے وقار پر سمجھوتہ ،چیئرمین سینیٹ کے عہدے کو مزاق بنانے اور وفاق پاکستان کی علامت کو اپنی ضد ،انا اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھانے پر تلی ہوئی ہے ۔۔اپویشن کی جلد بازی میں بلوچستان کے جھومر پر ہاتھ ڈالنے کے اقدام نے خود اپنے ارکان کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔

اپوزیشن کے بہت سے ارکان کے بھی دل اور دماغ قاتل مسکراہٹ والے صادق سنجرانی کے ساتھ ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے پر شکوک و شبہات کے باعث مبہم صورتحال میں ایک غیر یقینی کی صورتحال نظر آرہی ہے۔

ان دنوں اپوزیشن کے جس رکن سے ملوں وہ سیاسی جماعتوں سے اپنی وابستگی ظاہر کرنے اور رہبر کمیٹی کے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہونے کا یقین دلاتا دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم ایوان بالا میں ارکان کی قلیل تعداد والی حکومت ہو یا کوئی مقابل نہیں کے زعم میں مبتلا بھاری بھرکم اپوزیشن دونوں ہی اپنے اپنے محاز پر خوب ڈٹے ہوئے ہیں ۔

اگست کے آغاز پر ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں کون جیتے گا اورہار کس کی ہو گی یہ پیشن گوئی تو ابھی مشکل ہے لیکن اپوزیشن کی عجلت میں شروع کی جانیوالی “ ہٹو بچو ، تبدیل کرو کی “جدوجہد نے نہ صرف سینیٹ کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے بلکہ سیاسی گہما گہمی نے کھینچا تانی کا کھیل دلچسپ مرحلے میں اس یقین کے ساتھ داخل کر دیا کہ بدلہ تو بلوچستان سے ہی لینا ہے

Leave A Reply

Your email address will not be published.