زینب کے بعد ننھی نور فاطمہ کی پکار
عزیر احمد خان
ابھی ننھی زینب کی آہ و پکار کسی کو نہیں بولی تھی، اس کا قاتل ابھی تک اپنے انجام کو پہنچنے کیلئے منتظر ہے ، اس کے بعد ملک بھر کے طول وعرض میں بے تحاشہ کیس ہوئے ، کچھ پکڑے گئے اور کچھ کی گرفتاری کیلئے قانونی ادارے ابھی تک سرگرداں ہیں ، مگر چیچہ وطنی میں ایک اور ننھی پری نور فاطمہ کے ساتھ ہونے والا واقعہ انتہائی دلدوز ہے ۔
خبروں کے مطابق اس جنگلی بھیڑیئے نے بھی ننھی زینب جیسا ہی نور فاطمہ کا حال کیا مگر کہا یہ جا رہا ہے اس کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد معصوم نور فاطمہ کو جلا دیا اور وہ جاں بحق ہو گئی ، اس قدر حیوانیت ، درندگی شاید ہی تاریخ میں کہیں دیکھنے کو ملی ہو۔اس واقعہ نے تو ہلاکو خان کے دور کی یاد تازہ کردی۔
،کیا ہی اچھا ہوتا کہ پارلیمنٹ ایسا قانون پاس کرتی جس میں ایسے گھناﺅنے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو ایک ماہ کے اندر نشان عبرت بنا دیا جاتا ، اس کو سزا سرعام دی جاتی ، آج مجھے لاہور میں عرصہ داراز قبل ایک پپو قتل کیس یاد آرہا ہے جس میں ملزمان کو سر عام پھانسی دی گئی تھی، اس کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ چھ ماہ تک متعلقہ علاقے کے تھانوں میں کوئی لڑائی جھگڑے کے ایف آئی آر درج نہ ہوئی تھی۔
اسی طرح ضیا ءالحق کے دور میں سر عام کوڑے مارے جاتے تھے، یہ علیحدہ بحث ہے کہ بعد ازاں کوڑوں کی سزا سیاسی رنگ اختیار کر گئی، مگر اس کے بھی علاقے میں بہت دور رس نتائج مرتب ہوتے تھے، آج اگر ان ملزمان کو جنہوں نے ننھی پریوں کو نوچ نوچ کر موت کے گھاٹ اتار دیا ، ایسا قانون ہوتا کہ انہیں سر عام پھانسی دی جاتی ، سنگسار کیا جاتا ۔
ہم تو چار قدم اس بھی آگے جاتے ہیں کہ جس شخص نے ننھی نور فاطمہ کو آگ کے شعلوں کے سپرد کر دیا اور اگر یہ حقیقت ہے تو اس کو تو آدھا زمین میں گاڑھ کر اس پر جنگلی کتے چھوڑ دیے جائیں ، اس وقت تک وہ اس کی نعش بھنبوڑتے رہیں جب تک اس بوٹی بوٹی نہ ہو جائے، دنیا اس کی سزا کو دیکھے ، عبرت پکڑے اور آنے والی نسلوں کو بھی نصیحت کریں کہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھانا ۔
اسی وجہ سے اسلام نے ایسی سزائیں مقرر کی ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں جرائم بہت تیزی سے ختم ہو تے ہیں ، چور کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں اور قاتل کا سر تن سے جدا کر دیا جائے ، کسی کی عزت کو تار تار کرنے والے کو سرعام سنگسار کیا جائے ، مگر اب تو حالات ہی عجیب ہیں کہ کوئی ایسی سزا دی جائے تو انسانی حقوق کی تنظیمیں میدان میں کل آتی ہیں۔
یہ ظلم انہیں صرف اسلامی دنیا ہی میں نظر آتاہے جب شام میں امریکہ اور روس ملکر ننھے ،ننھے بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کا قتل عام کررہی ہیں، کیمکل ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں ، مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے ، فلسطین میں نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے اس پر ہٹ دھرمی یہ کہ اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کو شہیدکرنے کے بعد جشن مناتے ہیں ۔
ایسے میں ان انسانی حقوق کی تنظیموں کو سانپ سونگھ جاتا ہے ، وہ ادھر آواز تک اٹھانے کی جسارت نہیں کرتیں ، امریکی صدر ٹرمپ کہتا ہے کہ وہ روس کو شام میں سبق سکھائے گا، روس کہتا ہے وہ امریکہ کے میزائل مار گرائے گا ، بات سمجھنے کی یہ ہے کہ میدان جنگ ملک شام بنے گا ۔
مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دی جائیں گی ، اور یہ انسانی حقوق علمبردار اپنے چہروں پر کالک مل کر خاموشی اختیار کیے رکھیں گے، کیوں نہیں امریکہ اور روس ایک دوسرے کے ملکوں پر حملے کرتے ، ان کفار نے ہمیشہ مسلمانوں کی سرزمین کوہی تختہ مشق بنائے رکھا ، اپنے شہریوں کی جان محفوظ رکھی اور مسلم امہ کے خون کو ارزاں سمجھا ، اس کی تمام تر وجوہات یہ ہیں ہم اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات سے دور ہو چکے ہیں ۔
جب ملزمان کو بروقت اسلامی سزائیں دینا شروع کر دی جائیں گی تو جرائم بھی تیزی سے ختم ہونا شروع ہو جائیں گے، یوں تو حکومت نیب کے اخیتارات محدود کرنے کیلئے قلیل مدت میں آرڈیننس لانے کے بارے میں سوچ رہی ہے ،تاکہ چئیرمین نیب کے اختیارات محدود کیے جا سکیں ، گرفتاری کا اخیتار احتساب عدالت کو حاصل ہو چونکہ اس میں مفادات پوشیدہ ہیں اس لئے حکومت کا بھی زور ہے کہ آرڈیننس آجائے ، کیوں نہیں حکومت ایسے جرائم کی بیخ کنی کیلئے اقدامات اٹھاتی ہے۔
جن مجرموں کے زیادہ زندہ رہنے کی وجہ سے جرائم کو حوصلہ افزائی ملتی ہے ، جو بھی اخلاقیات سے گر کر جرم کا مرتکب ہو اس کو فی الفور سزادے کر دوسروں کیلئے سبق بنا دیا جائے تب ہی ننھی پریاں زینب اور نور فاطمہ محفوظ رہ سکیں گی