تاحیات نااہلی پر الیکشن قریب آتے ہی توجہ مرکوز، سپریم کورٹ سےنوٹسز جاری

52 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد: تاحیات نااہلی پر الیکشن قریب آتے ہی توجہ مرکوز، سپریم کورٹ سےنوٹسز جاری، تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اورالیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کئے گئے.

اس حوالے سے بینچ کی تشکیل کا معاملہ تین رکنی ججز کمیٹی کوبھجوا دیا، چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ججز کمیٹی طے کریگی کہ لارجر بینچ 5 رکنی ہوگا یا 7 رکنی؟چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہوجائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟

تاحیات نااہلی کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی 5سال ہے تو نماز نہ پڑھنے یاجھوٹ بولنے والے کی تاحیات نااہلیت کیوں ہے ؟

جب پاکستان کو تباہ کرنے کے مرتکب یا قتل کے جرم میں سزا یافتہ مجرم کی عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت پانچ سال تک ہے تواخلاقی جرم پر تاحیات نااہلی کیوں ہے؟

اس حوالے سے روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن یا کوئی اور موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کا شکار کرنے کیلئے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کریگا، موجودہ کیس کا نوٹس اُردو اور انگریزی کے بڑے اخبارات میں شائع کیاجائے.

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ انتخابات کے حوالے سے کوئی غیر یقینی صورتحال نہیں، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کی توہین ہوگی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پیر کے روز 2018کے انتخابات کیلئے ایک انتخابی امیدوار، میر بادشاہ قیصرانی کے کاغذات نامزدگی منظور کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ان کے مدمقابل امیدوار کن فیس امام قصرانی کی سول اپیل کی سماعت کی۔

چیف جسٹس کے استفسار پراپیل گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے موقف اختیار کیا کہ جواب گزار ،میر بادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت 2007 میں عوامی عہدہ کیلئے نااہل قراردیا گیا تھا ،لیکن ہائیکورٹ نے 2018 کے انتخابات میں انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کسی عوامی نمائندہ کی سزا ہی ختم ہو جائے توتاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ جس پر فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جھوٹے بیان حلفی پرکاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ پانامہ پیپرز لیکس کیس میں عدالت نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے اس نااہلیت کو تاحیات قرار دیا ہے ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہلیت کے فیصلے پر پر دو آراء ہیں۔

انہوں نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ نیب کے مقدمات میں تاحیات نا اہلیت جیسی سخت سزا ہے تو قتل کے مجرم کی کتنی نااہلیت ہے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ قتل کے مجرم کی نااہلیت صرف5 سال ہے ۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی پانچ سال نااہلیت ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ عوامی نمائندوں کی تاحیات نااہلیت اور آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نئی قانون سازی بھی ہوچکی ہے؟

انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے( الیکشنز (ترمیمی) ایکٹ2023 میں آرٹیکل 232شامل کرکے عوامی نمائندوں کی نااہلیت کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال کردی گئی ہے۔

کہا کہ میر بادشاہ قیصرانی کی سزا کیخلاف اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اگر اپیل کا فیصلہ نہیں ہوا تو وہ تاحیات نااہلیت کے باجود الیکشن لڑنے کے اہل ہونگے۔ استدعا کی کہ ہائیکورٹ کو انکی اپیل کا جلد فیصلہ کرنے کی ہدایت کی جائے.

اس پرچیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کو حکم نہیں دے سکتی ہے، ہم ہائی کورٹ پر مانیٹرنگ جج نہیں بیٹھے ہوئے ہیں، ہم ہائی کورٹ میں زیر التوا اپیل کے معاملے پر نہیں بلکہ عوامی نمائندوں کی ’’نااہلیت کی مدت کے تعین‘‘ سے متعلق اٹھنے والے آئینی سوالات کی تشریح پر فیصلہ کرینگے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا،جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر ختم کر سکتی ہے اور پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو غیر موثر کردیا ہے۔

Comments are closed.