قومی اسمبلی پوری نہیں قانون سازی کیسے ہوگی؟ سائرہ بانو

داغی پھل سے چارٹ نہیں بنتا، حکومت بن گئی

48 / 100

فوٹو: اسکرین گریب

اسلام آباد: جی ڈی اے کی رکن قومی اسمبلی سائرہ بانوکہتی ہیں آج جب ان کے اوپر پڑی ہے تو ریفارمز یاد آگئے ہیں۔

پارلیمنٹ ہاوس کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے سائرہ بانو نے کہا کہ یہ اصلاحات عوام کےلئے لے کر آتے ہیں تو سر آنکھوں پر، ان کی کسی اورریفارمز کے ساتھ نہیں ہیں۔

پارلیمنٹ ہاوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سائرہ بانو نے کہا چاہے نیب کے پر کاٹنے ہوں یا ان کے۔۔ خیال تب آتا ہے جب اپنی گردن کٹنے کا خدشہ ہو، یہ انتخابات سے بھاگ رہے ہیں ترکیہ میں تو زلزلہ آیا ہوا ہے وہ تب بھی الیکشن کررہے ہیں۔

اس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس سے خطاب میں سائرہ بانو نے کہاوزیراعظم آج آئے اور قانون کی باتیں کر رہے تھے،کریڈٹ تو بنتا ہے کہ خان صاحب نے ان کی بھی آنکھیں کھول دیں۔

انھوں نے یاد دلایا کہ کچھ عرصہ پہلے اداروں پر انگلیاں اٹھ رہی تھی آج عدلیہ پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ،کوئی ون مین شو تو پچھتر سالوں سے اس ملک میں ہے،کیا پارٹی میں ون مین شو نہیں ہوتا؟

یہ سوال بھی کیا کہ کیا ون مین شو عدلیہ تک محدود ہوگایا اطلاق باقی اداروں پر بھی ہوگا؟آپ حالات اس نہج تک لے کر جا رہے ہیں کہ سارے جنرلز چیف ہوں۔

معیشت تباہ کرنے کے بعد اب اداروں کے پیچھے پڑ گئےہیں، سائرہ بانو نے کہا اب اپنے پر بات آئی ہے تو اداروں میں خامیاں دکھنا شروع ہوگئی ہیں،یہ ایوان عوام کا ہے یا ان کے مسائل حل کرنے کی جگہ ہے۔

یہاں توشہ خانہ کا ذکر ہوا مگر ہار کا ذکر کرنا بھول گئے،ان سے یہ تو پوچھ لیں کہ یوسف رضا گیلانی صاحب کی پٹیشن دائر کس نے کی تھی،بڑے میاں صاحب کالا کوٹ پہن کر گئے تھے،شہباز شریف نے کہا اللہ پاک ہماری آسانیاں دور کرے۔

خطاب کے دوران جب پیچھے بیٹھے ہوئے "پ” پٹواری نہ سمجھیے گا پنکھے "فین” انہوں نے کہا آمین،سنا ہی نہیں کہ انہوں نے کہا ہے کہ اللہ پاک آسانیاں دور کرے۔

انھوں نے کہا کہ چیزیں ہاتھ سے نکل جائے گی تو نقصان پاکستان کا ہوگا،بہت سال پہلے کہا تھا کہ ہم ادھر تم ادھر آج کہہ رہے ہیں یا ہم یا تم،داغی پھلوں سے کوئی چاٹ نہیں بناتا انہوں نے حکومت بنادی۔

یہاں پرقومی اسمبلی پوری نہیں قانون سازی کیسے ہوگی؟ سائرہ بانو نے کہا 228 کے ایوان ہے یہ لٹی پھٹی کٹی پٹی اسمبلی ہے،یہ پوری اسمبلی ہی ایکسپنچ کر دینی چاہیے جی ڈی اے کی جانب سے اس قانون سازی کی مخالفت کرتی ہوں۔

Comments are closed.