کورونا کا خوف اور اندھی تقلید

ولید بن مشتاق مغل

پاکستان  سمیت  دنیا  بھر میں اس وقت نوول کورونا  سے متاثرہ  مریض موجود ہیں ۔ وائرس  کے پھیلاو کو روکنے کے جہاں ملکی و عالمی  ادارے  ہر ممکن کوشش  کر رہے ہیں  وہیں  مقامی سطح  پر بھی اس وائرس سے محفوظ  رہنے کے لیے ہدایات  دی جا رہی ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں  اس وقت 187,355  افراد اس  وائرس  کا شکار ہوئے  ہیں  جن میں سے 80,843  افراد مکمل صحت یاب بھی  ہو چکے ہیں۔

افسوناک بات یہ  کہ اب تک 7,477  افراد اس وائرس  کی وجہ سے موت کا شکار ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کے اعداد و شمار کی اگر بات کی جائے تو  اس وقت  کل کیسز کی تعداد 212ہے ،28 افراد کومشتبہ قرار دیا گیا ہے1 ہلاکت جبکہ 2 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں ۔ مجموعی طور پر مارچ17 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان  میں کنفرم کیسز کی تعداد  قریبا 209 ہے ۔ان میں  سے زیادہ تر مریض   وہ ہیں جو  بیرون ملک  سفر کے بعد اس وائرس کا  شکار ہوئے.

چند مریض  بیرون ممالک سے آنے والے افراد کے ساتھ میل جول کی  وجہ سے موذی مرض  کا شکار ہو ئے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے  اس پھیلاو کو روکنے  کے لیے تمام  کوششیں بھروئے  کار لائی جا  رہی ہیں  اور حفاظتی تدابیر کے طور پر ملک میں تعلیمی اداروں پارکس، پکنک پوائنٹس، شادی بیاہ کی تقریبات سمیت  ہر قسم  کے اجتماعات پر پابندی عائد  کر  دی ہے ۔

نوول کورونا  وائرس  پاکستان میں موجود تو ہے لیکن اس سے ابھی  تک پاکستان کے مختلف  حصے  نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ  اب تک رپورٹ ہونے والے کیسز بھی صرف سرحد پار  سے آنے والےمریضوں سے منسلک ہیں ۔   عوامی سطح پر موذی  وائرس  کے پھیلاو  کو روکنے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند ہے  لیکن  اس کے ساتھ ہی ایک مخصوص طبقہ صرف اور صرف  عوام کو گمراہ کرنے کے عمل پر برسرپیکار ہے ۔

یہ وہ افراد ہیں جنہوں  نے پاکستانیوں کو ذہنی مریض بنانے  کا ٹھیکہ  لے رکھا ہے اور ہر اوول فول ،بے سند، خرافات پر مبنی واقعات اور  ٹیبل اسٹوریز کو  دھڑلے سے پھیلانا شروع  کر رکھا ہے ۔ افواہوں کا  ایک بازار گرم ہے اور اس بازار میں ہر ایک نئی اور منفرد افواہ   کے ساتھ  دوسروں   پر سبقت لے جانے پر تلا ہے ۔

کہیں شراب جیسی  خرافات  تو  کہیں پیاز، ٹماٹر، ہلدی ،لہسن ،شہد دودھ،سبزیاں  اور دیگر اجناس  کےبے تکے ٹوٹکے بتائے جا رہیں ہیں تو کہیں پر  جنتر منتر ، بابا جی کی پھونکوں اور دم درود  سے  عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ چل  رہا ہے ۔ چند  ذرائع ابلاغ کے  ذریعے اس وائرس  سے دنیا کے خاتمے  کی کہانیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں  گویا دنیا  بھر کے لوگ اس وائرس سے مر جائیں گے اور  قیامت بھرپا کر دی جائے گی۔

تحریر کو آگے بڑھانے سے قبل  چند تاریخ واقعات  بیان کرنا چاہتا ہوں جنکا پہلا حصہ صرف وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں اور ان  سے ہونے والے نقصانات جبکہ دوسرا حصہ انسان کے اپنے پیدا  کردہ  حالات سے ہے جن  سے نسل  انسانی تباہی کے دھانے پر  کھڑی ہے۔ پہلے وائرس کی بات کر لیتے ہیں ، وائرس ایک خوردبینی جرثومے  کا نام ہے جس کے بارے نہ یہ کہا   جا سکتا ہے کہ یہ مردہ ہے  اور نہ ہی  یہ گمان کیا  جا سکتا ہے کہ یہ ایک  جاندار ہے ۔

سائنسی تعریف کے  مطابق یہ  زندہ اور مردہ کے درمیان ایک  باڈر  لائن ہے ، عام حالتوں میں وائرس  ایک مردہ  جرثومہ ہے گویا ایک  انتہائی چھوٹا سے زرہ جو کہ انسانی آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا  لیکن یہی  جرثومہ  اگر کسی زندہ خلیہ  یا سیل   میں  پہنچ جائے تو میزبان یا HOST خلیہ کے اندر  جا کر  زندہ  ہو جاتا  ہے ۔ایسی صورت میں یہ جرثومہ انسانی و حیوانی نسلوں کے لیے نقصان  دہ  ثابت  ہوتا ہے ۔

وائرس کی دریافت پہلی بار 1892 میں ہوئی۔ ہالینڈ کے ایک   سائنسدان Martinus Beijerinck  نے اسے دریافت کیا  اور اسکا  نام وائرس  رکھا ۔ وائرس سے متعلق سائنسی تحقیق  کے شعبہ کو وائرولوجی (( virology  کا نام دیا گیا ۔بعد ازاں 1926 میں کئی وائرس  دریافت ہوئے  اور 1931 میں پہلی بار وائرس  کی ساخت بھی بیان کی گئی ۔

ماضی میں  وائرس  سے پھیلنے  والی بیماریوں  کی فہرست  بہت  طویل  ہے جن میں1909 میں  Polio Virus،1918 میں Influenza Virus ،1920 میں Rabbies،1950 میں Dengue Virus، 1967 میں Marburg-virus،1976 میں Ebola  virus ،1980 میں HIV AIDS اور Samll Pox، 1993 میں Hanta Virus،  بیسویں صدی میں Rota  Virus، 2002 میںSARS CoV،2012 میں MERS CoV اور 2019 میں SARS CoV 2، سر فہرست ہیں ۔ انکے علاوہ  بھی کئی  وائرس  ہی جنکا ذکر یہاں  نہیں کیا گیا ۔

ایچ آئی وی AIDS سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد قریبا 36 ملین یا 3کروڑ60 لاکھ ہے۔ Influenza Virus سے ہونے والی اموات 80ملین  یا 8 کروڑ سے قریب  ترین  ہے۔ کورونا وائرس کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن    نے مورٹیلٹی  ریٹ(MORTALITY  RATE) یا شرح اموات 3.4 بتائی  ہے جو کہ  دیگر وائرل بیماریوں کے لحاظ سے اب تک کی  سب سے کم ترین شمار  کی جا رہی ہے ۔ پاکستان  میں HIV AIDS کے کیسز کی تعداد 2020 میں 160000 کے قریب ہے ۔

اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے  کہ پاکستان میں کتنی ہی ایسی بیماریاں ہیں جن کی صورتحال  کورونا  سے لاحق ہونے والے مرض  سے زیادہ  ہولناک اور  زیادہ توجہ کی متقاضی  ہیں۔ لیکن  ریٹنگ اور ویوز کی دور میں چند  نیم حکیم دشمن جان  اور عقل کے اندھوں  نے کورونا   بارے افواہوں اور دہشت سے عوام کو اس قدر مریض  بنا دیا ہے.

انہیں کورونا ہو نہ ہو لیکن وہ ذہنی طور پرمفلوج  ضرور ہو رہے ہیں ۔ اس ٹولے نے نہ اخلاقی اقدار کو بخشا ہے  اور نہ مزہبی عقائد کو مجروع کرنے میں کوئی کسر باقی چھوڑی ہے ۔ رہن سہن، طعام، اخلاقیات،مذہب ، طب حتی کہ جس کو جہاں بھی ذرا  سا خلا  نظر آیا ہے اس نے اسکو اپنے لیے فائدے کا ذریعہ  بنا لیا ہے ۔  پاکستان کی  عوام جن سے مجھے بہر حال شکوہ کم ہی ہے( کیونکہ ہمیں  اندھا دھند تقلید کی لت اور تحقیق  سے  عداوت ہو چکی ہے ) نے  صحیفہ سمجھ کر خوب  ان خرافات پر  نہ صرف عمل  کیا ہے بلکہ اسکی تشہیر اور تبلیغ بھی ثواب دارین  سمجھ  کر کی ہے ۔

اس کے نتائج آپ کو ابھی سے نظر آنے شروع ہو چکے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حالات کو غذاب الہی سمجھ کر ناامید ہونے  یا  بے تکی باتوں کی اندھا دھن تقلید کے بجائے خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے  تنبیہ  سمجھتے ہوئے اپنے معاملات کو درست کرنے کی سعی کی جائے۔  رب العزت کی جانب سے  انسان کو عطا کردہ ارادے و اختیار اور عقل و فہم کو بروئے کار لایا جائے اور اپنے ساتھ ساتھ پوری  انسانیت  کے فائدے کے اسباب ڈھونڈےجائیں۔

افواہوں کے بازار کے بجائے  اہل علم تحقیق و ایجادات کے وسیع میدان میں طبع آزمائی کریں اور جو اس  سے عاری ہیں وہ کم از کم خوف و دہشت پھیلانے کے بجائے اہل علم   سے فیض  یاب ہوں ۔جدید سائنسی  علوم، تعلیم ،سماجی ، و اخلاقی اقدار  کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ آئندہ آنے والے دنوں میں برپا ہونے والے  فتنوں   کے لیے بھی خود کو تیار کیا جا سکے ۔

Comments are closed.