’’ڈرامہ کی تاریخ اور دیریلیش اِرْطَغْرَل‘‘

ولید بن مشتاق

21 ویں صدی کا دوسرا عشرہ مکمل ہونے کو ہے، حضرت انسان نے اپنی پیدائش سے لیکر موجودہ دور تک ترقی کی ان گنت منازل طے کی ہیں ۔ بحر ِو بَر پر حکمرانی سے لیکر کائنات کی وسعتوں پر آج انسان اپنا رعب جماتا نظر آتا ہے ۔لیکن اس سب کے باوجود جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے انسان اپنے ماضی کو بھلا کر ماضی کی یادو ں میں کھو جانا چاہتا ہے ۔نجانے مستقبل کے لیے تگ و دو کرتا یہ خاکی سکون کی تلاش میں ماضی ہی کو کیوں راستہ بناتا ہے ؟ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ مستقبل کا جو تصور اسکے زہن میں تھا وہ اسکی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا یا پھر شاید یہ کہ آنے والے وقت کے بارے میں انسان کا گمان بہت ہی ناقص ہے اور وہ اس شش و پنج میں ہے کہ کیا معلوم مستقبل میں اسکے لیے راحت وسکون میسر ہو گی بھی یا نہیں ؟ بہر حال جو ں جوں وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے انسان پیچیدہ مسائل کا شکار ہو رہا ہے ۔

فطرتا انسان آرام دے اور پرسکون زندگی کا قائل ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پریشانیاں ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ یہی پریشانیاں جن انسان پر حاوی ہوتی ہیں تو مختلف قسم کے امراض لاحق ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے مختلف قسم کے ناٹک کرتا اور دیکھتا ہے، جو چند لمحات کے لئے انسانی پریشانیوں پر غالب آ کر انسان کو مسرت بخشتے ہیں۔ فرض کیجئے آپ کو بھوک ستا رہی ہو اور کھانا میسر نہ ہو، تو ایسے میں کھانے پینے کی چیزوں کو تصور میں لاکر آپ پیٹ بھر سکتے ہیں ۔ شاید عقلی دلیل یہ ماننے سے انکا ر کر دے لیکن کیا ایسا واقعی ہو سکتا ہے؟ اگر اسکا جواب چاہتے ہیں تو تجربہ کرنے میں کیا قباحت ہے ! محققین کا خیال ہے کہ انسان میں فرض کرنے،اور تماشا دیکھنے کا شوق فطری اور قدیمی ہے انسان اپنے دل و دماغ کی تسکین کے لئے من پسند تماشے دیکھتا اور کرتا ہےہے کیونکہ وہ اپنے عدید کو چند لمحوں کے لئے بھول جانا جاتا ہے۔

جیسے کے شاعر اپنے محبوب بارے لکھتا ہے ۔’’دل کو ترے خیال سے بہلا رہا ہوں میں‘‘۔ یعنی وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ یہ اسکا گمان ہے حقیقت نہیں لیکن ساتھ ہی تصور کےعمل سے راحت کا اقرار بھی کر تا ہے ۔
سائنسی ترقی نے اسی ناٹک یا فرضیت کو محدود سے لامحدود کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا ہے ۔ جدید دور میں حضرت انسان کی سوچ و عمل کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے ۔اور ناٹک کا یہ سلسلہ بھی انفرادی کے بجائے اجتماعیت کی شکل اختیار کر رہا ہے ۔داستان ، ناول، افسانہ اور ڈرامہ اصل میں کہانی کی مختلف اقسام ہیں۔ لیکن ڈرامہ بنیادی طور پر کہانی کی جدید شکل ہے جو واقعات اور کرداروں کے باہمی ربط سے تشکیل پاتی ہے۔ جس طرح ایک کہانی دوسری کہانی سے فنی اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا زندگی کے ساتھ رشتہ بھی جداگانہ ہوتا ہے۔ ڈرامہ نگار اپنی تخلیق میں ہر مزاج کے ناظر کے ذوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے موضوعات کی طرف مائل ہوتا ہے جو اپنے تاثر کے اعتبار سے نہ صرف ہمہ گیر ہوں بلکہ اجتماعی مذاق ، روایت اور جذبے کی ترجمانی اور عکاسی بھی کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرامے کو جمہوری فن کہا جاتا ہے۔

ادب کی دیگر اصناف کے مقابلے میں ڈرامہ ایک ایسی فنی صنف اور تخلیقی عمل ہے جس کا عوام کے ساتھ براہِ راست اور فوری نوعیت کا تعلق ہے۔ شاعری اور دیگر اصنافِ ادب ابلاغ اور تفہیم کے لیے انتظار کر سکتی ہیں، مگر ڈرامہ انتظار کا محتاج نہیں۔ اسٹیج یا ٹیلی ویژن کے ناظرین جس بھی سطح کی ذہانت اور سماجی شعور کے حامل ہوں فوری طور پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ناول اور افسانہ میں ردعمل کی حیثیت انفرادی ہوتی ہے لیکن ڈرامے میں اجتماعی۔ آج کل دنیا بھر میں ایک ترکش ڈرامہ سیریز ’’ ڈیریلش ارطغرل‘‘ کی بہت دھوم ہے۔ 12 صدی کی سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی یہ ڈرامہ سیریل دسمبر 2014کو ترکی کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہوتی ہے اور بعد ازاں عالمی شہرت سمیٹتی ہے۔ ڈیریلش ارطغرل 5سیزنز پر مشتمل ترکی کی تاریخ کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ڈرامہ سیریز ہے۔ یکم رمضان المبارک سے پاکستا ن میں میں بھی اس ڈرامہ سیریز کی اردو ڈبنگ سرکاری ٹیلی وژن پر نشر کی جائے گی ۔

ٹانک، ڈرامہ یا تھیٹر کی تاریخ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو محققین کہتے ہیں زمانہ قدیم میں لوگ رقص و سرو ر کی محفلیں مرتب کرتے تھے لیکن ڈرامے کا باقاعدہ آغاز یونان اور مصر کی تہذیبوں سے ہوا۔ سر زمین یونان کے دیوتا دیونی سس کے احترام میں رقص و سرور کی محفل سجائی جاتی تھی۔ ایک تحقیق کے مطابق یونانی تہذیبوں کے پہلے ڈرامہ نگار تھیس پس ہیں جس نے پہلی دفعہ ڈرامہ لکھا۔ اسی طرح مصری تہذیب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے دو تین ہزار سال قبل مصر کی تہذیب اپنے عروج پر تھی کیونکہ مصری تاریخ کے مطابق قدیم ترین انسانی تہذیب کا گہوارہ رہ چکی تھی۔جان گیسز نے اپنی کتاب ’’ماسٹرز آف دی ڈرامہ‘‘ میں اس دور کے ایک مذہبی ڈرامے کے بارے میں معلومات فراہم کیں جس میں مصری دیوتا اوری سس کی موت کے عجیب و غریب اور مافوق الفطرت واقعات دکھائے گئے تھے۔

چینی تہذیب بھی دنیا کی قدیم تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے نکول کے مطابق چین میں اسٹیج ڈرامے کا آغاز حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے کم و بیش گیارہ سو سال پہلے ہو چکا تھی ۔کچھ کا خیال ہے کہ ڈرامے کا آغاز دو ہزار سال قبل مسیح میں ہوا ،اس دور میں ایسے ڈرامے لکھے گئے جن میں دیومالائی کرداروں اور رقصوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی تھی ۔یہ روایت بڑے استقلال کے ساتھ قدیم عہد سے آج تک مسلسل چلی آ رہی ہے۔ المختصر، ڈرامہ یونانی اور پھر لاطینی زبان کا لفظ ہے اور اس صنف کے ارتقاء میں بنیادی حصہ مغرب کا ہے۔ ریکارڈ شدہ تاریخ میں پانچویں صدی قبل ازمسیح میں کلاسیکی یونانی ڈرامہ ایک منظم شکل اختیار کر چکا تھا۔ تیسری صدی قبل ازمسیح میں یورپ میں کلاسیکی رومن ڈرامے میں جو تنوع، نفاست اور وسعت دیکھنے کو ملی، وہ پہلے کسی بھی ثقافت میں نہیں تھی۔ قرونِ وسطیٰ میں لگ بھگ دسویں صدی ’انجیل‘ کے واقعات پرمبنی ڈرامے بننے شروع ہوئے۔

سولہویں اور سترھویں صدی میں شیکسپئر اور دیگر تخلیق کاروں نے ڈرامے کو ایک نئی جہت دی۔اگر اپنے خطے کی بات کی جائے تو تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پہلا ڈرامہ سنسکرت زبان میں تحریر کیا گیا۔ پہلی سے دسویں صدی کے درمیان ہزاروں ڈرامے لکھے اور پیش کئے گئے۔ ہند میں اسلامی فتوحات کے دور میں دسویں، گیارہویں صدی میں ڈرامے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ ڈرامہ بہت کم لکھا گیا اور اچھے ڈراموں کی تعداد تو اتنی کم ہے کہ انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو ادب کے بانی صوفیائے کرام اور مسلمان شعراء تھے۔ ان حضرات نے اپنی ثقافت کی بناء پر ڈرامے کی طرف بالکل توجہ نہ دی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ دور ڈرامے سے بالکل خالی نظر آتا ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ تب ادب پر سب سے زیادہ اثر فارسی زبان کا تھا اور چونکہ فارسی میں ڈرامہ نگاری کی روایت نہ تھی اس لئے اردو میں بھی ڈرامہ نہیں لکھا گیا۔ جبکہ بعد ازاں ڈرامہ نہ لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اردو ادب کے دو بڑے مراکز دہلی اور لکھنو تھے۔ اور ان مراکز میں زیادہ تر شاعری کا چرچا تھا.

درباروں کی سرپرستی بھی زیادہ تر شاعروں ہی کے لئے مخصوص تھی۔ پندرھویں سے انیسویں صدی برِصغیر میں مقامی اقدار کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف علاقائی زبانوں میں تھیٹر شروع کیا گیا۔ ہندوستانی ڈرامہ کی موجودہ شکل انیسویں اور بیسویں صدی میں سامنے آئی۔ جدید ڈرامہ نگاری کے حوالے سے رابندرناتھ ٹیگور کا پورے برِصغیر میں بہت نام ہے۔تخلیق پاکستان کے بعد بھی ڈرامہ پر بہت ہی کم کام کیا گیا۔ ٍیہ کام زیادہ تر ریڈیو اور ٹیلی ویڑن پر کیا گیا۔آغا حشر کے مکالموں کا مزاح محض زبان کا چٹخارہ ہوا کرتا تھا اس کا تخاطب جذبات سے نہیں ذہن سے ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے مزاحیہ ڈرامے نے اردو ادب کو اچھوتا اور ایک نیا میدان دیا ۔ جانے پہچانے افسانہ نگاروں میں احمد ندیم قاسمی ، انتظارحسین، ہاجرہ مسرور اور آغا بابر کو ڈرامے سے خاص لگاو رہا اور انہوں نے کئی ایک ڈرامے لکھے۔ لیکن ان کے علاوہ ہر قبیل کے لکھنے والوں نے ڈرامے کو نوازا ہے قرة العین نے ’ٹی،ایس ایلیٹ‘ کا ترجمہ کر ڈالا ۔ چھپے ہوئے ڈرامے بہت ہی کم تھے جن میں ابراہیم جلیس کا ڈرامہ ’اجالے سے پہلے‘ ناصر شمسی کا ’تیرے کوچے سے ہم نکلے‘ اور منٹو ’ اس منجھدار میں‘ شامل ہیں۔

خواجہ معین الدین نے ڈرامے کو ایک سریع الاثر فن کی صورت میں استعمال کیا انہوں نے زوال، حیدرآباد، آخری نشان، تعلیم بالغاں اور لال قلعہ سے لالو کھیت تک لکھے۔ مرزا ادیب نے بھی افسانے سے ہٹ کر ڈرامے کے فن پر خصوصی توجہ مبدول کرائی۔ستون، لہور اور قالین ان کے یک بابی ڈراموں کے مجموعے اور ’شیشے کی دیوار ‘ پورے وقت کا ڈرامہ ہے۔

پاکستان ٹیلی وژن پر بعد ازاں بھی سماجی وفرسودہ رسم و رواج کے حوالے سے کئی ڈرامے پیش کیے گئے اور خاصے مقبول بھی ہوئے۔ تاہم اسلامی تاریخ کے حوالے سے کوئی اعلیٰ پایہ کا کام دیکھنے کو کم ہی ملتا ہے ۔ اب یکم رمضان المبارک سے پاکستان ٹیلی وژن پر ترکش ڈرامہ سیریز ’’دیریلیش اِرْطَغْرَل‘‘ کو اردو ترجمہ کے ساتھ نشر کیا جائے گا ۔ پاکستان میں اس سیریز کے کئی مداح یوٹیوب پر اسے دیکھ رہے ہیں ۔ اب ٹیرسٹریل نیٹ ورک پر نشر ہونے سے ’دیریلیش اِرْطَغْرَل‘ ملک کے طول و عرض میں دیکھا جائے گا ۔ اس فیصلہ پر کافی بحث و مباحثہ بھی ہو رہا ہے۔ ایک طبقہ فکر اس فیصلہ کی اس بنیاد پر حمایت کر ر ہا ہے کہ سیریز سے قوم اسلامی تاریخ سے روشناش ہو گی ۔

ترک صد ر رجب طیب اردگان کا یہ کہنا کہ ’کسی بھی ملک کا میڈیا معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کرتاہے۔میڈیا جو کچھ بھی دکھاتا ہے لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں کی زندگیوں پر اس کے مثبت او ر منفی بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہم جس زوال کے دور سے گزر رہے ہیں اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے میڈیانے اسلام کے اصل ہیرو کو مار کر دفن کر دیا ہے‘ کو بھی کافی پسند کیا جا رہا ہے اور اسی بنیاد پر اک طبقہ فکر اس ڈرامہ سیریز کی قومی سطح پر نشریات کا حامی ہے ۔ انکے مطابق یہ ڈرامہ مغرب کی ان تمام فلموں، ڈراموں، سیریلز، ناولوں اور کتابوں کا بلا واسطہ جواب ہے جنہوں نے عریانیت، فحاشی اور جھوٹ کے ذریعہ اسلام اور تاریخی واقعات کو اپنے مفاد کے لیے مسخ کر کےاسلام کو بدنام، بدنما اور مسلمان نوجوانوں کو مایوس، ذہنی طور پر برباد کرنےکی کوشش کی ہے، اور جن کو مسلمان نوجوان تقریباً سو سال سے دیکھتا آرہا تھا۔

کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے ان کو صحیح مان کر اپنے مذہب سے متنفر اور اپنے آباء و اجداد سے کوسو ں دور بھی ہورہا تھا۔ یہ طبقہ فکر کہتا ہے کہ ترکش سیریز کو دیکھنے سے مسلمانوں کو اسلامی روایات جاننے اور سیکھنے کا موقع ملے گا ۔
دوسرا طبقہ فکر مختلف رائے رکھتا ہے ۔ انکے مطابق سیریل یا فلم کیسی بھی ہو اس میں کم از کم تین خرابیاں ، یعنی ویڈیو گرافی، رقص وموسیقی اور اجنبی عورتوں کی موجودگی ضرور پائی جاتی ہیں۔ اور یہ تینوں امور ناجائز ہیں۔ ایک فتوی میں احادیث کے حوالوں کے ساتھ کہا گیا ہے !

تصویر کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ تصویر بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے بنایا ہے اس کو زندہ کرو‘۔ ’میوزک کے بارے میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا، اور لہو و لعب اور گانے بجانے کے آلات کو ختم کرنے کا حکم دیا‘۔فتوی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلمیں جن میں سلاطین اسلام کی تاریخ بیان کی جاتی ہے ان میں ایک مزید خرابی یہ ہے کہ لوگ ایسی فلمیں دیکھنے کو گناہ ہی نہیں سمجھتے، یا ہلکا سمجھتے ہیں، اور گناہ کو ہلکا سمجھنا یا گناہ ہی نہ سمجھنا زیادہ خطرناک گناہ ہے۔ سلسلہ وار فلموں کے دیکھنے کی لوگوں کو جو لت لگتی ہے اس میں ضیاع وقت، نمازوں کا چھوٹنا ، اور دیگر ضروری کاموں سے غفلت ، مذکورہ بالا خرابیوں پر مستزاد ہیں۔ جب کہ یہ بات معلوم ہے کہ کوئی جائز کھیل تماشہ بھی اگر فرائض و واجبات میں کوتاہی کا سبب بننے لگے تو وہ ناجائز ہو جاتا ہے ۔تاریخی فلموں میں ایک خرابی یہ ہوتی ہے کہ بہت سارے واقعات محض فرضی یا مبالغہ آمیزی پر مبنی ہوتے ہیں۔ جس میں کذب و افتراء اور غیبت تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس طبقہ فکر کے مطابق ڈرامہ سیریز ارطغرل میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو اسلامی روایات کے منافی ہیں ۔عہد توڑ دینا، تعزیم وغیرہ کا جو تصور دکھایا گیا ہے جو اصل نہیں ہے ۔

چونکہ یہ ذرامہ سیریز تاریخ پر مبنی ہے یعنی یہ امر ضروری نہیں کہ اس میں بیان کردہ تما م حالات و واقعات،کردار،اور ڈائیگلاگ وغیرہ بلکل ویسے ہوں جیسے اس وقت کہے یا کیئے گئے تھے ۔ ڈرامہ رائٹیر اور پروڈیوسرز کی جانب سے بھی اس حوالے سے کوئی سند نہیں کہ یہ مکمل اسلامی تاریخ کے عین مطابق ہیں ۔ جسکی وجہ یہ ہے کہ کردار کو پرکشش بنانے ، اسکرین پلے اور ڈائیلاگ لکھنے نیز عکس بندی سے لیکر ڈرامہ نگاری کے جدید تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کہانی کے اصل ماخذ میں کئی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں جو کہ نہایت ضروری ہیں وگرنہ ڈرامہ بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن سا ہو جاتا ہے ۔ اس بنیاد پر ایک طبقہ فکر اس ڈرامہ سیریز کا حامی نہیں ہے ۔ دارالعلوم دیوبند کے فتوی میں کہا گیا ہے کہ ’ کسی بھی جائز مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ناجائز طریقہ اپنانا درست نہیں، خلافتِ عثمانیہ کے تاریخی دور کی روئیداد تاریخ کی کتابوں کے مطالعہ اور اس سے متعلق لٹریچر عام کرکے ہوسکتی ہے؛ اس کے لیے فلم، ڈرامہ بنانا اور دیکھنا جائز نہیں ہے‘
(دارالافتاء :فتوی نمبر ( 144105200813
ترکش ڈرامہ سیریز ’’دیریلیش اِرْطَغْرَل‘‘کے حوالے دلچسپ بات یہی ہے کہ مختلف طبقہ فکر اسکے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں، تاہم عالمی سطح پر اس سیریز کی پروڈکشن کا کافی چرچہ ہے ۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ ذرامہ سیریز ایسا شاہکار ہے جسے مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ مغرب میں بھی سب سے زیادہ پزیرائی ملی ہے ۔

اسے دیکھنے یا نہ دیکھنے کے حوالے سے قارئین کو کوئی رائے دینا مناسب نہ ہو گا ۔ فطرتی عمل جسکے بارے ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں، چند لمحات کے لیے اپنے عدید کو بھلا کر کسی تصوراتی دنیا میں جانا تو ممکن ہے تاہم یہ فیصلہ انسان کے اپنے دائرہ اختیار میں ہے ؛چاہے تو کچھ وقت تصورات کو دے یا پھر موجودہ وقت کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ماضی و مستقبل کے حوالے سے اپنے عقل و فہیم کے مطابق کوئی فیصلہ کر لے ۔ دونوں صورتوں میں کوئی قباعت نہیں ۔ میرے مطابق تو اہم بات یہ ہے بھوک کی صورت میں خیالی پلاو کھانے سے افاقہ ہو گا یا نہیں ۔ ؟ اس حوالے سے اپنی قیمتی رائے دینے کے لیے ہمیں ای میل کیجئے۔
www.veeeeedi@gmail.com

حوالہ جات:
دارالافتاء :فتوی نمبر 144105200813۔۔
اردو ڈرامے کی روایت۔۔دسمبرسن 2019۔۔
پی ٹی وی ڈراما۔۔فن اور روایت از ضیاء الدین۔۔
مراسلہ جاسم محمد ۔۔ اردو محفل فروری 2020۔۔۔

Comments are closed.