پوٹلی والوں کی دعائیں اور بددعائیں

جاوید چوہدری

اگر اسلام آباد میں رہتے ہیں تو آپ راول ٹاؤن چوک کو اچھی طرح جانتے ہوں گے‘ یہ چوک کلب روڈ پر سرینا ہوٹل سے فیض آباد کی طرف جاتے ہوئے آتا ہے‘ چوک میں ایک پٹرول پمپ اور ایک پرانی مسجد ہے‘ میں 1993ء میں اسلام آبادآیا تو مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا تھا‘ گاؤں کی زمینیں ایکوائر ہو چکی تھیں‘ امیر لوگ زمینوں کی قیمتیں وصول کر کے بڑے بڑے سیکٹروں اور فارم ہاؤسز میں شفٹ ہو چکے تھے لیکن وہ غرباء پیچھے رہ گئے تھے جن کی زمینوں کے پیسے امراء کھا گئے یا پھر وہ جو گاؤں کے کمی کمین تھے اور ان کے نام پر کوئی زمین نہیں تھی‘ حکومت نے انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا‘

دنیا میں

ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لہٰذا وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں مقیم تھے‘ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ نے ان کو بے شمار نوٹس دیئے مگر مکینوں کا کہنا تھا ”ہم کہاں جائیں‘ آپ ہمیں بتا دیں ہم وہاں چلے جاتے ہیں“ حکومت ظاہر ہے ایک ٹھنڈی ٹھار مشین ہوتی ہے‘ اس کا دل ہوتا ہے اور نہ ہی جذبات لہٰذا حکومت جواب میں ایک اور نوٹس بھجوا دیتی تھی‘ نوٹس بازی کے اس عمل کے دوران بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں‘ ضلعی انتظامیہ نے جب بھی سویلین گورنمنٹ سے آپریشن کی اجازت مانگی حکومت نے اجازت نہ دی‘ انتظامیہ ایک بار مشینری لے کر وہاں پہنچ گئی‘ چودھری شجاعت حسین اس وقت وزیر داخلہ تھے‘ ان کو اطلاع ملی تو وہ فوراً وہاں پہنچے اور ذاتی طور پر آپریشن رکوایا لیکن پھر 1999ء آ گیا اورجنرل پرویز مشرف حکمران بن گئے‘ ان کا قافلہ روز اس چوک سے گزر کر وزیراعظم ہاؤس آتا تھا‘ جنرل مشرف کی طبع نازک پر غریبوں کی وہ جھونپڑیاں ناگوار گزرتی تھیں‘ وہ ایک دن گزرے‘ کھڑکی سے باہر دیکھا اور آپریشن کا حکم جاری کر دیا‘ میں ان دنوں شہزاد ٹاؤن میں رہتا تھا اور روزانہ راول چوک سے گزرتا تھا‘ میں نے دوپہر کو دفتر جاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے وہ آپریشن دیکھا‘ وہ لوگ انتہائی غریب تھے‘ ان کے گھروں میں ٹوٹی چار پائیوں‘ پچکے ہوئے برتنوں اور پھٹی رضائیوں کے سوا کچھ نہیں تھا‘ انتظامیہ نے وہ بھی ضبط کر لئے‘ گاؤں چند گھنٹوں میں صاف ہو گیا‘ زمین کو فارم ہاؤسز میں تبدیل کر دیا گیا اور وہ فارم ہاؤسز امراء نے خرید لئے‘
صرف مسجد اور اس کے ساتھ چند قبریں بچ گئیں‘ وہ قبریں بھی اب کم ہوتی چلی جا رہی ہیں‘ یہ کہانی یہاں پر ختم ہو گئی‘ 2007 ء میں اس کہانی کا ایک نیا پہلو میرے سامنے آیا‘ ملک میں اس وقت جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک چل رہی تھی‘ ایک روز ایک صاحب وہیل چیئر پر میرے پاس تشریف لائے‘ وہ ٹانگوں سے معذور تھے اور چہرے سے بیمار دکھائی دیتے تھے‘ میں انہیں بڑی مشکل سے گھر کے اندر لا سکا‘ وہ مجھے اپنی کہانی سنانا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا‘ راول چوک کا وہ آپریشن انہوں نے کیا تھا‘ وہ اسے لیڈ کر رہے تھے‘

میں خاموشی سے ان کی داستان سنتا رہا‘ ان کا کہنا تھا‘ ان کے تین بچے تھے‘ دو لڑکے اور ایک لڑکی‘ شادی پسند کی تھی‘ وہ سی ایس پی آفیسر تھے‘ کیریئر بہت برائیٹ تھا‘ سینئر اس کی کارکردگی سے بہت مطمئن تھے‘ ان کا اپنا خیال بھی تھا وہ بہت اوپر تک جائیں گے‘ وہ رٹ آف دی گورنمنٹ کے بہت بڑے حامی تھے‘ وہ سمجھتے تھے قانون پر سو فیصد عمل ہونا چاہیے اور جو شخص قانون کے راستے میں حائل ہوریاست کو اس کے اوپر بلڈوزر چلا دینا چاہیے چنانچہ جنرل مشرف نے جب راول چوک کے مکانات گرانے کا حکم دیا تو یہ ذمہ داری انہیں سونپی گئی‘ یہ فورس لے کر وہاں پہنچے اور گھر گرانا شروع کر دیئے‘

لوگ مزاحم ہوئے‘ پولیس نے ڈنڈے برسائے‘ لوگوں کو گرفتار بھی کیا اور ایک آدھ موقع پر ہوائی فائرنگ بھی کرنا پڑی‘ بہرحال قصہ مختصر آپریشن مکمل ہو گیا اور انتظامیہ نے ملبہ اٹھانا شروع کر دیا‘وہ رکے اور پھر بھولے‘ آپریشن کے بعد اینٹوں کے ایک ڈھیر پر درمیانی عمر کی ایک خاتون بیٹھی تھی‘ وہ ملبے سے نہیں اٹھ رہی تھی‘ اس کا صرف ایک مطالبہ تھا‘ وہ کہہ رہی تھی وہ بس ایک بار آپریشن کرنے والے صاحب سے ملنا چاہتی ہے‘ انتظامیہ عموماً ایسے مواقع پر خواتین سے زبردستی نہیں کرتی چنانچہ اہلکاروں نے انہیں بتایا اور وہ خاتون کے پاس چلے گئے‘

خاتون نے ان کی طرف دیکھا اور کہا ”صاحب یہ آپریشن آپ نے کیا“ میں نے جواب دیا ”ہاں“ اس نے جھولی پھیلائی‘ آسمان کی طرف دیکھا اور بولی ”یا پروردگار‘ اس شخص نے میرے اور میرے بچوں کے سر سے چھت چھینی‘ یا اللہ اسے اور اس کے بچوں کو برباد کر دے“ میں اس وقت جوان تھا‘ میں نے منہ دوسری طرف پھیر دیا‘ اس خاتون نے اس کے بعد کہا ”یا اللہ ہم سے ہمارے گھر چھیننے والے تمام لوگوں کو برباد کر دے“ اس نے اس کے بعد اپنی پوٹلی اٹھائی‘ اپنے بچے ساتھ لئے اور وہ چلی گئی‘

وہ رکا‘ اس نے اپنے آنسو پونچھے اور بولا‘ جاوید صاحب آپ یقین کریں وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں بحرانوں سے نہیں نکل سکا‘میں اس پوٹلی والی کی بددعا کا نشانہ بن گیا‘ میرا ایکسیڈنٹ ہوا‘ میری بیوی اور میری بچی مر گئی‘ میری ٹانگیں کٹ گئیں‘ میرے دونوں بیٹے ایک ایک کر کے بیمار ہوئے‘ میں نے اپنی ساری جمع پونجی ان کے علاج پر لگا دی لیکن وہ فوت ہو گئے‘ مجھے سسرال سے گھر ملا تھا‘ وہ بک گیا‘ میں نے اپنا گھر بنایا تھا‘ وہ2005ء کے زلزلے میں گر گیا‘

محکمے نے میرے اوپر الزام لگایا‘ میری انکوائری شروع ہوئی‘ میں ڈس مس ہوا اور میں بے گناہی کے باوجود آج تک بحال نہیں ہو سکا‘ میں مقدمے پر مقدمہ بھگت رہا ہوں‘ میں 38 سال کی عمر میں شوگر‘ بلڈ پریشر اور دل کا مریض بھی بن چکا ہوں اور میرے تمام رشتے دار اور دوست بھی میرا ساتھ چھوڑ چکے ہیں‘ میں دل سے سمجھتا ہوں مجھے اس عورت کی بددعا لگی تھی‘ حکومت‘ میرا محکمہ اور آرڈر دینے والے لوگ تینوں پیچھے رہ گئے لیکن میں برباد ہو گیا‘

میں آج سوچتا ہوں تو میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں‘میں کتنا بے وقوف تھا! میں نے اس جنرل مشرف کے حکم پر غریبوں کے سروں سے چھت چھین لی جو خود تاریخ کے سب سے بڑے قبضہ گیر تھے‘ وہ غریب چند کنال زمین پر قابض تھے جبکہ جنرل مشرف نے 8 لاکھ مربع کلو میٹر کے ملک پر قبضہ کر رکھا تھا‘ وہ رکا اور بولا‘ آپ آج سڑکوں پر جنرل مشرف کے خلاف جلوس دیکھ رہے ہیں‘ آپ یقین کیجئے یہ بھی اب میری طرح اپنی گھر میں نہیں رہ سکیں گے‘ ہم سب کو اس عورت کی آہ کھا جائے گی‘

وہ رکا اور پھر بولا‘ آپ کو میری باتیں عجیب لگیں گی لیکن میں نے تحقیق کی ہے‘ اس آپریشن کا حکم دینے والا ہر شخص میری طرح ذلیل ہوا‘ ان میں سے آج کوئی شخص اپنے گھر میں آباد نہیں‘ وہ سب اولاد اور بیویوں کے بغیر عبرت ناک اور بیمار زندگی گزار رہے ہیں یہاں تک کہ اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے کی ساری پراپرٹی بھی بک گئی اور اس کی اولاد بھی دربدر ہو گئی‘ وہ بھی عبرت کا نشان بن کر آخری سانسیں لے رہا ہے‘ وہ صاحب اپنی کہانی سنا کر چلے گئے‘ میں چند دن اس کہانی کے تاثر میں رہا اور پھر نئے واقعات نے اس واقعے کو یادداشت کے آخری کونے میں دھکیل دیا‘ میں اسے بھول گیا۔

وہ صاحب اور تجاوزات کے خلاف وہ آپریشن مجھے چند دن سے بار بار یاد آ رہا ہے‘ حکومت اس وقت آدھے ملک میں د ھڑا دھڑ لوگوں کے مکان اور دکانیں گرا رہی ہے‘ یہ لوگ یقینا ناجائز قابض ہوں گے اور ریاست کو اپنی رٹ ضرور اسٹیبلش کرنی چاہیے لیکن کیا سرکار کی زمین پر صرف یہ لوگ قابض ہیں اور کیا صرف چار پانچ مرلے کے گھر اور بیس فٹ کے شیڈز ناجائز تجاوزات ہیں؟حکومت ذرا سی تحقیق کرے اسے لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضہ ملے گا‘ کیا حکومت اس پر بلڈوزر چلا سکتی ہے‘ جی نہیں‘ عمران خان کبھی یہ غلطی نہیں کریں گے‘

دوسرا‘ عام غریب لوگ سرکاری زمینوں‘ سڑکوں کے ساتھ موجود رقبوں‘ گلیوں‘ بازاروں اور چوکوں پر تھڑے اور چھپر بنا لیتے ہیں‘ کیوں؟ اس کی واحد وجہ ان جگہوں کا خالی اور بے مصرف ہونا ہے‘ آپ جب پارک کی جگہ پارک‘ گرین بیلٹ کی جگہ گرین بیلٹ‘ مسجد کی جگہ مسجد‘ فٹ پاتھ کی جگہ فٹ پاتھ اور نرسری کی جگہ نرسری نہیں بنائیں گے تو اللہ کا کوئی نہ کوئی بندہ اس زمین پر جلد یا بدیر آباد ہو جائے گا‘ کیوں؟کیونکہ یہ زمین اللہ کی ہے اور اللہ کے بندے اس پر لاکھوں سالوں سے آباد ہوتے آ رہے ہیں‘

انسان کی نفسیات ہے یہ خالی جگہ نہیں چھوڑتا لہٰذا حکومت اگر ان زمینوں کو ناجائز قابضین سے بچانا چاہتی ہے تو پھر یہ انہیں خالی نہ چھوڑے‘ یہ انہیں نیلام کر دے‘ الاٹ کر دے یا پھر کرائے پر دے دے‘ سرکار کو آمدن بھی ہو گی اور زمینوں پر ناجائز قبضے بھی نہیں ہوں گے اور تیسرا اور آخری نقطہ‘ اللہ کی ذات ہر چیز‘ ہر ضرورت سے بالاتر ہے لیکن گھر اور تعریف دنیا کی دو واحد چیزیں ہیں جس کی اللہ کو بھی طلب ہوتی ہے‘ پوری زمین پر اللہ کے گھر (عبادت گاہیں) ہیں اور یہ اپنے بندوں سے اپنی حمدو ثناء کی توقع بھی کرتا ہے‘

اللہ جب بھی کسی سے خوش ہوتا ہے تو یہ اسے چھت اور رزق دیتا ہے اور اسے اپنے ذکر کی توفیق بھی عطا کر دیتا ہے چنانچہ میرا تجربہ اور میرا مشاہدہ ہے دنیا کا ہر وہ شخص جو کسی کے سر سے چھت اور اس کا روزگار چھینتا ہے یا پھر کسی معزز شخص کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے سب کچھ چھین لیتا ہے اور وہ شخص اس کے بعد روز مرتا اور روز جیتا ہے مگر اس کی سزا ختم نہیں ہوتی لہٰذا آپ جو دل چاہے کریں لیکن کسی کی بددعا نہ لیں‘ دنیا کے تمام عہدے‘ کرسیاں اور تکبر عارضی ہوتے ہیں‘ یہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور دنیا اور آخرت دونوں میں صرف پوٹلی والیوں کی دعائیں اور بددعائیں کام آتی ہیں۔

Comments are closed.