میں اپنےمرد کولیگ سے پیھچے کیوں؟

خالدہ نیاز

پشاورمیں ایک خاتون صحافی ہونے کی حییثیت سے اگرمیں خود کودیکھوں توصحافتی مواقعےتوموجود ہیں پر معاشرے اور رشتہ داروں کی جانب سے پیدا کی گئی رکاوٹیں بھی کچھ کم نہیں اورکچھ کا سامنا تو مجھے روز کرنا پڑتا ہے۔ جیسے گھر سے نکلتے ہی گلی کے لڑکوں اور ان کے کمنٹس کا سامنا کرنا ، ٹرانسپورٹ میں لوگوں کی چبھتی نگاہیں، اور پھر گھر لیٹ جاتے ہوئے دوبارہ لوگوں کی سوالیہ نظریں یقیننا مجھے تھکا دیتی ہیں۔

میرےسمت تمام ورکنگ خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ پہلے تو وین میں جگہ نہیں ملتی اگرخوش قسمتی سے مل بھی جائے تو اس میں سوار ہونے کے لئے خوار ہونا پڑتا ہے اور اب تو شاید خواتین کا احترام بھی لوگ بھول چکے ہیں۔

پختون معاشرے میں بالخصوص دیہاتوں اور نواحی علاقوں کی تعلیم یافتہ خواتین کا کام کی خاطر پشاورآنا اور جانا معیوب سا سمجھا جاتا ہے۔ پیٹھ پیچیے لوگ قیاس آرائیں کرتے رہیتےہیں اور اگر خاتون الیکٹرانک میڈیا میں کام کرتی ہوتو پھرلوگوں کوکردارکشی کرنےکا جواز مل جاتاہے۔ کیونکہ عام طور پر گاؤں کے لوگ صحافت کے شعبےسے آشنا ںہیں ہوتےاور ان کا یہی خیال ہوتاہے کہ ٹی وی اور ریڈیو صرف انٹرٹینمںٹ کے ذرائع ہیں اور اسمیں کام کرنےوالے فنکار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جو سماجی زندگی کو بہت متاثر کرتا ہےاور اس شعبے میں چھٹی کا کوئی واضح تصورنہیں کیونکہ ہرحال میں اپنےآپکو باخبر رکھنا پڑتاہے۔ دوسری طرف صحافت میں روزکی ڈیڈلائنز پوری کرنی پڑتی ہیں اور ایسےمیں دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ ایک ایک کرکےسارے دوست اوررشتہ دار رابطہ ختم کردیتے ہیں۔

معاشرتی مسائل نہ صرف سماجی زندگی پربلکہ پروفیشنل زندگی پربھی اثرانداز ہوتے ہیں جیسے اگرمیں باہررپورٹنگ کرنا چاہوں تومجھے گھروالوں کی جانب سے اجازت نہیں ملتی اوریوں میں اپنے مرد کولیگ سے پیچھے رہ جاتی ہوں۔ یہ اس لئے نہیں کہ میں رپورٹنگ کرنہیں کرسکتی بلکہ اس لئے کہ مجھے اس کی اجازت نہیں۔ اور میں نے اس بات پرکھبی ضد بھی نہیں کیا کیونکہ گھروالوں نے مجھے فیلڈ رپورٹنگ ناسہی دفترمیں کام کرنے کی اجازت تو دی ہے۔

یہ سارے مساںل ایک طرف مگر پھر بھی مجھے صحافت سے دلی لگاؤ ہےاور میں آگےبھی اسی شعبے میں کام کرنا چاہتی ہوں لیکن کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کیا میں شادی کے بعد صحافت جاری رکھ پاؤں گی؟ کیا سسرال والے مجھے جاب کرنےکی اجازت دیں گے؟ یہ اندیشےسوچ کراُداس ہوجاتی ہوں۔

ان سب روکاوٹوں کے باوجود جب کچھ لوگ آپ کو سپورٹ کرتے ہوں اور آپکے کام کو سراہتےہوں تو ایک ہمت آپکے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ مجھے چند دن پہلے ہوا جب میں اپنےبھائی کی شادی کی دعوت دینے گاؤں میں ایک بوڑھی عورت کے گھر گئی جوبان کے چارپائی پرلیٹی تھی مجھے دیکھ کر آٹھ کھڑی ہوئی اور پیار سےمیرا ہاتھ چوم کرکہا کہ وہ روزانہ ریڈیو پرمیری خبریں سنتی ہے اور اس بات پرفخرکرتی ہےکہ ایک لڑکی خبریں بنا اورپیش کرسکتی ہیں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ یسیراورغریب ہونے کے باوجود میں نے سبق پڑا اور آج میری آواز میں خبریں فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے دس ایف ایم سٹیشنز سے لوگوں تک پہنچتی ہیں۔

Comments are closed.