میاں برادران ایک ہزار ارب روپے دینے کو تیار

شمشاد مانگٹ

رمضان المبارک کی آمد آمد کے پیش نظر ملک بھر میں شادیوں میں اس طرح تیزی آئی ہوئی ہے جیسے رمضان شریف اس برس پانچ برس کیلئے آرہا ہے اور اگر رمضان سے پہلے بچوں کے ہاتھ پیلے نہ ہو سکے تو پھر وہ ”زائد المعیاد“ ہو جائیں گے۔

ہر رمضان اور ہر محرم سے پہلے شادیوں میں تیزی ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کا پتہ دیتی ہے اور ان دونوں مہینوں سے پہلے عوام جس طرح شادیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اس کے بعد وزارت منصوبہ بندی کی تمام ” منصوبہ بندی“ دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔

رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے جس طرح ملک بھر میں شادیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں بالکل اسی طرح ملکی سیاست میں تبدیلیاں بھی اس رفتار سے ہوتی نظر آرہی ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف تقریباً دو سال کے بعد ایک بار پھر عدالتوں کے ہاتھ پر ” بیعت“ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

اب رائیونڈ محل میں رہنے والے ملازمین سے لیکر بادشاہوں تک کو بھی انصاف ہوتا ہوا نظر آنے لگا ہے۔ میاں نواز شریف جیل سے گھر تک کی ضمانت ہونے کے بعد اب سمندر پار ضمانت کیلئے امید سے ہیں اور مسلم لیگی کارکنوں کو پورا یقین ہے کہ میاں صاحب کی گود کسی بھی وقت ہری ہو سکتی ہے اور وہ انصاف کا نعرہ بلند کرتے بیرون ملک پرواز کر جائیں گے۔

اسی طرح چھوٹے میاں نے فی الحال لندن میں قیام کو طویل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مقتدرحلقوں سے خیرسگالی کا اظہار کرنے کیلئے انہوں نے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ چھوڑ نے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر اب رانا تنویر فرائض سرانجام دیں گے جبکہ پارلیمانی لیڈر کی ذمہ داری خواجہ آصف کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔

میاں شہباز شریف کے اس فیصلے کو سیاسی حلقے کسی پس پردہ ڈیل یا ” ڈھیل“ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے میاں حمزہ شہباز شریف کو انصاف کی بروقت فراہمی کیلئے لاہور ہائیکورٹ نے جو کردار ادا کیا تھا اس پر سوشل میڈیا پر مناسب بھی اور غیر مناسب بھی تبصرے کئے گئے۔

اب تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ حمزہ شہباز کو برق رفتار انصاف فراہم کرنے والے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد کو لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ بھیج دیا گیا ہے اور حمزہ شہباز شریف کی مستقل ضمانت سے متعلق اب جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی ڈویژن بنچ سماعت کرے گا۔

جسٹس باقر نجفی وہ جج ہیں جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ تیار کی تھی۔ جسٹس باقر نجفی کا نام آتے ہی مسلم لیگی قیادت کو ٹھنڈے پسینے آنا شروع ہو جاتے ہیں اسکی کیا وجہ ہے؟ یہ تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت ہی بہتر بتا سکتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان بھی این آر او کی بُو سونگھ رہے ہیں اس لئے ہر جلسے اور جلوس میں این آر او نہ دینے کی بڑھکیں لگا رہے ہیں مگر اس بار این آر او کا انجکشن اسی خوبصورتی سے لگایا جارہا ہے جس خوبصورتی سے میثاق جمہوریت سے بندھی دو سیاسی پارٹیوں کو جال میں پھنسایا گیا تھا۔

دونوں طرف کی سیاسی قیادت کیخلاف عدالتی حکم پر جے آئی ٹی بنی تھی اور دونوں کیخلاف عدالت نے ہی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ لہذا آثار دکھائی دیتے ہیں کہ این آر او بذریعہ ایگزیکٹو آرڈر نہیں ہوگا بلکہ عدالتی حکم کے ذریعے اس کا نفاذ آہستہ آہستہ کر دیا جائے گا۔

ملک بھر میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ میاں برادران ایک ہزار ارب روپے دینے پر تیار ہو گئے ہیں جبکہ حکومت کی سوئی ایک ہزار ارب روپے کے ساتھ قوم سے معافی بھی مانگنے پر ”اڑی“ ہوئی ہے۔

مسلم لیگی قیادت کا خیال ہے کہ اگر ہم نے اس طرح معافی مانگی تو یہ دنیا کی مہنگی ترین معافی ہوگی جو ایک ہزار ارب روپے کےعوض لی جائیگی لہذا ایک ہزار ارب روپے لیکر ہمیں سہولتیں دی جائیں اور بچی کھچی دولت سے لطف اندوز ہونے کا بھرپور موقع دیا جائے اور معافی کو حکومت سردخانے میں رکھوا دے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیراعظم عمران خان این آر او نہیں دیں گے مگر اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم عمران خان این آر او دینے کی پوزیشن میں بھی ہیں؟

جنہیں این آر او چاہئیے وہ پرانے اور ماہر کاریگر ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ این آر او کس سے لینا ہے اور کن شرائط پر لینا ہے۔ جہاں تک وزیراعظم عمران خان کی بات ہے تو بعدازاں این آر او وہ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم عدالتوں کا ہمیشہ احترام کرتے ہیں۔

شہر اقتدار میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی گزشتہ روز ہونیوالی پریس کانفرنس بھی زیر بحث ہے اور سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کے یا تو سول حکومت نے پشتین موومنٹ سے متعلق پریس کانفرنس کرنے سے معذرت کر لی جس کے بعد میجر جنرل آصف غفور کو تقریباً اعلان جنگ کرنا پڑا ۔

یا پھر ڈی جی آئی ایس پی آر پاک بھارت کشیدگی کے موقع پر پے درپے پریس کانفرنسز کرکے میڈیا کے دلدادہ ہو گئے تھے اس لئے انہوں نے یہ پریس کانفرنس کرکے اپنی اس اداسی اور بوریت کو دور کیا۔ میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس سے سول حکومت کے مقتدر نہ ہونے کا تصور ایک بار بھر مضبوط ہوا ہے ۔

جو باتیں میجر جنرل آصف غفور نے کیں یہ باتیں وزیر داخلہ کو جچتی تھیں کیونکہ اس سے پہلے تحریک لبیک کیخلاف حتمی کارروائی کا بظاہر اعلان سول حکومت نے ہی کیا تھا اورپھر تحریک لبیک کی قیادت کو مفلوج کر دیا گیا۔

پشتیں موومنٹ کے معاملے میں بھی سول حکومت کو آگے رکھا جاتا تو یہ ایک بہترین حکمت عملی ہوتی لیکن میجر جنرل آصف غفور نے اینکرز حضرات سے دل کی بات بھی کہہ دی کہ انہیں ہفتے میں کم از کم ایک دن ٹاک شو میں ضرور بلایا جائے۔

اس سے پاکستان کا تو پتہ نہیں بھلا ہو گا یا نہیں البتہ دشمن کو انکے پروگرام سے انکی باڈی لینگوئج اور گفتگو سن کر استفادہ کرنے کا بھرپور موقع ملا کرے گا۔ یقیناً یہ رائے انکو پسند نہیں آئے گی مگر بات کرنے میں کیا حرج ہے؟


Comments are closed.