لانگ مارچ روکنے کی حکومتی درخواست سپریم کورٹ سے مسترد ہوگئی

 اسلام آباد: لانگ مارچ روکنے کی حکومتی درخواست سپریم کورٹ سے مسترد ہوگئی،عدالت کی طرف سے کہا گیاہے کہ جب قانون کی خلاف ورزی ہوئی تب مداخلت کریں گے حکومت خود قانون کے مطابق صورتحال نمٹ سکتی ہے۔

حکومت کی طرف سے عمران خان خان کےخلاف توہین عدالت کی درخواست کی چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل لارجر بینچ نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ عدالت کے حکم پر سری نگر ہائی وے گراؤنڈ کے راستے کھول دیئے گئے تھے اور کارکنان کو پکڑ دھکڑ سے روک دیا گیا تھا، عدالت نے پی ٹی آئی لیڈر شپ کو اپنے کارکنان کو پرسکون رہنے کی بھی ہدایت کی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رپورٹس میں آیا کہ پی ٹی آئی لیڈر شپ نے یقین دہانی کی خلاف ورزی کی، متعلقہ اداروں نے رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرائیں، مجھے ان رپورٹس کی کاپی نہیں مل سکی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ  رپورٹس کی کاپی آپ کو فراہم کردی جائے گی، آپ کو کاپی ملنے کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے،اشتر اوصاف نے کہا کہ میری عدالت سے عبوری حکم کی بھی استدعا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عبوری حکم جاری کریں؟

ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے

اٹارنی جنرل نے کہا عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کو جہاد قرار دے رہے ہیں، تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں جارہے ہیں، عمران خان اپنی تقریروں کے ذریعے لوگوں کو اُکسا رہے ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو دی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ لانگ مارچ اور دھرنے کا پلان ہے، آپ قانون کے مطابق صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں، شہر کے علاقوں کے تحفظ کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا ابھی تک تو فی الحال تقریریں ہی ہیں، آپ شہری علاقوں میں جہاں تھریٹس ہیں وہاں اقدامات کریں،جب ہجوم آئے تب ہی اسے روکن کی استدعا کریں، رپورٹس میں بڑے ٹھوس جوابات دیئے گئے ہیں، 25 مئی کو 31 شہری تصادم سے زخمی ہوئے۔

اس موقع پر جسٹس اعجازالا حسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایڈوانس میں ایسی صورتحال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئی،اٹارنی جنرل نے کہا کہ خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کی پولیس اسلام آباد آچکی ہے۔

آپ ایسی صورتحال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئی،جسٹس اعجازالحسن

 اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ پہلے رپورٹس کا جائزہ لے لیں، آپ ایڈوانس میں ایسی صورتحال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئی، جب کچھ ہو تو آپ عدالت کے پاس آسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہاں ہے عوام کا سیلاب؟ گزشتہ بار صرف تین سو لوگ کلوز ایریا میں آئے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسلام آباد کی طرف عوام کا سیلاب آسکتا ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہاں ہے عوام کا سیلاب؟ گزشتہ مرتبہ دو تین سو لوگ کلوز ایریا میں داخل ہوئے تھے، میرے خیال میں وہ دو تین سو لوگ مقامی تھے، وہ لوگ مظاہرین کے ساتھ نہیں آئے تھے۔

اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا ٹھوس مواد لے کر آئیں، ہماری مداخلت درکار ہوئی تو چھٹی کے دن بھی آئیں گے ، عدالت کے سامنے ٹھوس مواد لے کر آئیں، ہمارا کام توازن رکھنا ہے جب کہ احتجاج کا حق بھی مشروط ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئے اگر کسی سیاسی لیڈر نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے،عدالت نےسابقہ احتجاج پر رپورٹس فراہم کرنے کا حکم دے کر سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کردی

Comments are closed.