اسلام میں خواتین کے حقوق
بابر ملک
خواتین کے حقوق اور ان پر ٹوٹنے والے مظالم کی بھی ایک تاریخ ہے، اسلام سے قبل قدیم یونان حتیٰ کہ عرب میں بھی خواتین کے ساتھ کیا جانے والا سلوک بھی ظلم کی ایک داستان ہے جس سے موجودہ دور میں تقریباَ ہر انسان واقف ہے۔
پھر نبی پاک صلی اللہعلیہ وسلم کی ولادت باسعادت اور اسلام کا دور شروع ہوا تو جہاں ہر انسان کی اپنی اپنی حدود و قیود کے ساتھ اسکے حقوق واضح کیے گئے وہاں خواتین کے حقوق بھی شامل تھے۔ خواتین کی عزت، انکا مرتبہ اور انکی شان قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بیان کی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں بھی اسکا ذکر کثرت سے موجود ہے۔
اللہ تعالٰی کے احکامات دیکھے جائیں تو عورت کا نان نفقہ مرد کے ذمے ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ: عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ(البقرہ: ۲۳۶) ترجمہ: ”خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔
اسی طرح سے عورت کے حق مہر کے بارے میں اللہ پاک فرماتے ہیں : وَآتُواْ النَّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْءٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئاً(النساء: ۴) ترجمہ: ”عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاو۔
اب رہا جائیداد میں حصہ تو اسکے بارے بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح کر دیا ہے کہ عورت کا حصہ کیا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں: لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأنْثَیَیْنِ (النساء: ۱۱) ترجمہ: ”مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے”۔ اسکا مطلب ہے کہ وراثت
میں عورت کو مرد کا نصف حصہ ملے گا۔
خواتین کا ایک اقلیتی اور مخصوص طبقہ اپنے جن حقوق کیلئے آج کل سڑکوں پہ کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا ہے انکے وہ حقوق اوپر قرآن کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب وہ خواتین جو شادی اپنی مرضی سے کرنا چاہتی ہوں یا والدین سے انکی پسند ناپسند پوچھنے کا حق لینا چاہتی ہوں تو وہ حق اسلام انکو آج سے چودہ سو سال پہلے دے چکا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن (۱) ترجمہ: ”شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔
یہاں تک کہ اگر کسی عورت کا نکاح اسکے بچپن میں کر دیا گیا ہو اور بالغ ہونے کے بعد اسکی مرضی اس نکاح میں شامل
نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ وہ اسے رد کر سکتی ہے، اگر مرد فاسق ہے، خاندان کے مطابق نہیں ہے تو اس صورت میں اولیا کرام سے مشورہ لیا جا سکتا ہے لیکن عورت پر اس حوالے سے کسی قسم کے جبر کی اجازت ہرگز نہیں ہے۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: وعاشروہن بالمعروف (النساء: ۱۹) ترجمہ: ”عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آوٴ” مطلب کہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاوٴ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ خیرُکم خیرُکم لاہلہ۔ (۲) تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔ اسی طرح سے بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ حجة الوداع کے دوران فرماتے ہیں
”لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے ۔
گھرمیں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے”۔(۳) ایک اور جگہ ارشادِ نبوی ہے: انَّ أکْمَلَ الموٴمنینَ ایماناً أحسنُہم خُلقاً وألطفُہم لأہلہ(۴) ترجمہ:
”کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو”۔
عورت کی تخلیق کے بارے میں اور ان کے رتبے کے بارےمیں ارشادِ نبوی ہے کہ: حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰةِ(۵) ترجمہ: ”مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے”۔
عورت کو اظہار رائے کی آزادی بھی اسلام نے دی۔ رائے کے اظہار کا حق عورت کو بھی اتنا ہی حاصل ہے جتنا کہ مرد کو حاصل ہے۔ مرد اس معاملے میں کسی بھی طرح عورت سے بڑھائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ
ہے کہ : وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً (النساء: ۲۰) ترجمہ: ”اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو”۔
اس طرح سے اگر قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا جائے تو ایسی بے شمار آیات خواتی کے حقوق سے متعلق ہیں جبکہ بے شمار مواقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں خواتین کے حقوق اور انکے مرتبے کی تعریف کی ہے۔
یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ اپنی چادر مبارک انکے لئے بچھاتے اور ان سے شفقت سے پیش آتے۔ انسان کی تخلیق کا وسیلہ بھی عورت ہے جس کی کوکھ سے مرد جنم لیتا ہے اور پہلی درسگاہ بھی ماں کی گود ہی ہے جہاں سے وہ پرورش پاتا ہے اور اسکی تربیت بھی ہوتی ہے۔
جہاں ماں کو روز دیکھنے کا رتبہ حج کے برابر ہو، جہاں بہن سے شفقت سے پیش آنا صدقہ ہو اور بہن کی دعا عرش ہلا دیتی ہو، جہاں بیوی کو مسکرا کر دیکھنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہو،
جہاں بیٹی کی اچھی پرورش ہی جنت میں اعلیٰ مقام کی کجنی ہے۔ اس دین کا نام اسلام ہے۔ اور الحمداللہ ہم مسلمان ہیں، مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں چاہے کوئی مرد ہے یا عورت۔
جب اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتیین کے حقوق متعین کر دئیے ہیں اور جگہ جگہ انہیں بتایا بھی ہے تو اسکے باوجود وہ ایک مخصوص طبقہ کون سا ہے جو اس کے بعد بھی خواتین کے حقوق کے لئے باہر سڑکوں پر نکلتا ہے۔
دو دن قبل جب خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا تھا تو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بھی ایک ایسا ہی اقلیتی طبقہ نمودار ہوا جس نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ شاید خواتین کے حقوق کے لئے نکلنا کوئی اتنا معیوب نہ ہوتا اگر ان کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز پر مختلف اقسام کے فتنے درج نہ ہوتے۔ ان پلے کارڈز پر درج لفاظی کبھی بھی ایک مسلمان عورت کی نہیں ہو سکتی نہ ہی وہ ہمارے مشرقی معاشرے کی عکاس ہو سکتی ہے۔
کوئی شک نہیں کہ ہماری سوسائٹی میں شاید بہت سوں کو عورت کے اسلام میں بیان کئے گئے حقوق کا علم بھی نہ ہو یا اگر علم ہے بھی تو دنیا داری میں اس قدر مگن ہو چکے ہیں کہ انہیں وہ حقوق بھلا دئیے گئے ہیں ۔
ایک مثال اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ جائیداد میں عورت کو حصہ شاید اسلام کے مطابق نہیں دیا جا رہا، لیکن اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں لالچ کا عنصر اس قدر بڑھ چکا ہے کہ جائیداد پر قبضےکے لئے ہمارے ہاں ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں ۔
اولاداپنے والدین کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے، بھائی بھائی کا دشمن ہو جاتا ہے، لیکن وہ بھی ایک اقلیتی طبقہ ہے ورنہ یہاں اچھی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بھائی اچھے کھاتے پیتے ہیں تو وہ اپنے والدین کی جائیداد کا سارا حصہ خوشی سے اپنی بہنوں میں بانٹ دیتے ہیں کہ کسی طرح سے ان کی مدد ہو جائے۔
اس لئے وہ مخصوص طبقہ جو گزشتہ دنوں اسلام آباد میں خواتین کے حقوق کی خاظر تھوڑی دیر کے لئے نمودار ہوا، اسکی مخالفت سوشل میڈیا پر ان سے کہیں زیادہ دیکھنے کو ملی اور ان کی سب سے
زیادہ مخالفت کرنے والی بھی اسی معاشرے کی خواتین تھیں جنکا کہنا تھا کہ اس طبقے کی تشہیر بھی غلط ہے اور انکے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز پر درج الفاظ بھی کبھی اکثریتی طبقے کی ترجمانی نہیں کر سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ مخصوص طبقہ کون سا ہے اور اسکے کیا عزائم ہیں، وہ خواتین کی کیسی آزادی چاہتا ہے، یا ایک اور سوال ہے کہ کہیں وہ مخصوص طبقہ دجال کا ایک نیا فتنہ تو نہیں کہ اس طبقے سے پیدا ہونے والی اولاد ہی آگے جا کر دجالی فتنے کی پیروکار بنے گی،
جس زمانے کے بارے میں ہمارے صحابہ کرام نے بھی پناہ مانگی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس زمانے سے انہیں اور انکی اولاد کو بچائے جب اپنا دین بچانا مشکل نظر آئے گا اور دجالی فتنہ اس قدر عروج پائے گا کہ لوگ اسکو ہی درست جانیں گے۔
پھر اس وقت ایک طبقہ ہوگا جو اپنا دین بچا پائے گا اور وہی اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل پیروکار ہوں گے۔ رب تعالیٰ سے ہماری بھی دعا ہونی چاہئے کہ ہمارا اور ہماری آل اولاد کا خاتمہ بھی دینِ اسلام پر کرے اور آخرت کا سفر محفوظ فرمائے، آمین
(۱) مشکوٰة، باب عشرة النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۸۱
(۲) مشکوٰة، کتاب النکاح، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۷۰
(۳) مشکوٰة بروایت صحیح مسلم ، فی قصة حجة الوداع، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۲۵
(۴) مشکوٰة، عن ترمذی، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص:
(۵) نسائی ، ابی عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی الشہیر (النسائی)، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ۱۳۰۳ھ ص: ۶۰۹