قبائلی خواتین انٹرنیٹ سے دور رہیں

سمیرا راجپوت

گھر کے مخصوص کونے میں گھنٹوں تک صرف اس اُمید پر بیٹھے رہنا کہ شاید یہاں انٹرنیٹ کے سگنل بہتر آئیں اور آپ کو اپنے عزیزوں کی خیر خبر دریافت ہو جائے! ایسا کبھی ہوا ہے کہ آپ اپنے پیاروں سے مسلسل رابطہ کرتے ہوئے تھک جائیں؟

لیکن جب کال ملے تو سگنل کی خرابی آپ کے درمیان حائل ہو جائے، اگر آپ خود سے سوال کر چکے ہیں اور آپ حیران ہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے تو آپ پاکستان کے پر آسائش ترین علاقے میں قیام پذیر ہیں اور آپ کے پاس وہ سہولت موجود ہے، جو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے وضع کیے گئے حق ‘رائٹ ٹو انفارمیشن کے آرٹیکل انیس کے مطابق بنیادی حقوق کے زمرے میں آتی ہے۔

پاکستان میں 1990ء سے انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی تقریبا چھتیس فیصد آبادی انٹرنیٹ کا استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے آج تک بہت سی تحریکوں نے سر اٹھایا، بہت سارے ہیش ٹیگ لوگوں نے معاشرے کو انصاف دلانے کے لیے استعمال کیے۔

وہ چاہے قصور کی آٹھ سالہ زینب کے لیے ہیش ٹیگ جسٹس فار زینب ہو یا اسلام آباد کی فرشتے کے لیے اٹھائی جانے والی آواز ہیش ٹیگ جسٹس فار فرشتے ہو لیکن کیا کبھی کسی قبائلی علاقے کی بیٹی کے لیے کوئی آواز اٹھائی گئی ہے؟ ایسا ہو بھی کیسے؟ جن کے پاس اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے کے لیے انٹرنیٹ سروس ہی میسر نہیں اور اگر میسر ہے بھی تو ایسی بدحال کہ سگنل ہی نہیں آتے، وہاں قبائلی بیٹیاں کیا کرتی ہوں گی؟ ان کے مسائل تو معاشرہ نہ جانتا ہے نہ جانے گا۔

وزیرستان سے پہلی صحافی خاتون رضیہ محسود کہتی ہیں کہ وزیرستان میں خواتین کے انتہائی سنجیدہ اور بے حساب مسائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کی وزیرستان میں کوئی نمائندگی نہیں، انہیں ووٹ ڈالنے کا حق تو دے دیا گیا ہے لیکن ووٹ کیوں کاسٹ کرنا ہے، کس کو کاسٹ کرنا ہے، یہ شعور ہی نہیں دیا گیا۔

دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں انہیں صرف یہ بتایا گیا کہ آپ نے کس انتخابی نشان پر مہر لگانی ہے لیکن کیوں لگانی ہے؟ یہ سوال بھی کرنے کی اجازت نہیں۔ اس ساری صورتحال سے متعلق آپ کو کوئی ویڈیو انٹرنیٹ پر لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں مل سکتی کیوں کہ وہاں انٹرنیٹ کی سہولت ہی میسر نہیں۔

رضیہ کا کہنا ہے، ”پانچ سال قبل جب میں نے صحافت میں قدم رکھا، مجھے کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور بات صرف تنقید تک محدود نہیں تھی، مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی تھیں، میں علاقے میں آزادانہ گھوم نہیں سکتی تھی۔ مجھے ایک لمبا عرصہ لگا علاقہ مکینوں کو یہ سمجھانے میں کہ خواتین صحافت بھی کر سکتی ہیں، علاقہ مکینوں کو ان کی صحافت سے کوئی خطرہ نہیں۔

کووڈ انیس کی وجہ سے پورے ملک کی طرح وزیرستان کے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند ہیں لیکن طلبہ آن لائن کلاسز جیسی سہولت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ٹانک، مرودی، وانا میں انٹرنیٹ کی سہولت کے لیے طالب علم احتجاج کر رہے ہیں لیکن خواتین کو اس احتجاج میں بھی شامل ہونے کی اجازت نہیں۔

کیوں کہ ‘قبائلی خواتین کو انٹرنیٹ کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر انہیں انٹرنیٹ میسر کر بھی ہو تو تعلیم و تربیت کے بغیر اس انٹرنیٹ کا استعمال کیسے کریں گی؟ فاٹا کے مستقبل کے معماروں کو اگر تعیلم، شعور اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولیات نہ دی گئیں تو اس علاقے میں کب تک اور کیسے امن قائم رہے گا؟

فاٹا کا خیبر پختونخواہ کے ساتھ انضمام تو ہو گیا ہے لیکن ان قبائلی علاقوں کی قسمت نہیں بدلی۔ انٹرنیٹ تو دور۔ ان علاقوں میں صحت جیسی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ علاقے میں آپریشن کے بعد بنائے جانے والے بیشتر ہسپتال زمین بوس ہو چکے ہیں۔ زچگی کے لیے کوئی ہسپتال موجود ہی نہیں، بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے لیے سروکئی میں بنایا جانا والا ہسپتال بھی خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے۔

سروکئی سے تعلق رکھنے والی اینارجانہ محسود اس علاقے کی بے رحمی کی زندہ مثال ہیں۔ اینارجانہ محسود کو زچگی کے لیے ہسپتال لایا گیا، ٹی ایچ کیو ہسپتال میں سہولیات تو موجود تھیں لیکن عملہ ہی موجود نہیں تھا۔ وہاں موجود چند خواتین نے زچگی میں مدد تو کر دی لیکن انکیوبیٹر آپریٹ کرنے کے لیے عملہ ہی موجود نہیں تھا۔

بچے کو فوری کسی اور ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اینارجانہ کہتی ہیں،”میں پہلی ماں نہیں جس کے ساتھ یہ حادثہ ہوا بلکہ یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ علاقے میں موجود بیشتر لوگوں میں شعور کی کمی ہے، جس کے باعث خواتین سے منسلک ہر مسئلہ غیرت کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔

اینارجانہ محسود کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب تو کر لیا لیکن اب حکومت قبائلی علاقوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘قبائلی علاقے کی خواتین بھی اتنی ہی انسان ہیں جتنی باقی خواتین ہیں۔ زندگی کی بنیادی سہولیات پر ان کا بھی برابر کا حق ہے۔( بشکریہ ڈی بلیو )

Comments are closed.