رضیہ محسود
پاکستانی ڈرامہ سنگ ماہ کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ پختونوں کے ایک قبیح رسم غگ یا ژاغ پر بنائی گئی ہے لیکن پہلی قسط نشر ہونے کے بعد مجھ سمیت بہت سے ناظرین پر آشکارا ہو گیا کہ ڈرامہ میں پختونوں کی بہت ہی غلط عکاسی کی گئی ہے۔
پہلی قسط میں آفس میں موجود ایک میڈم غگ یا ژاغ کے حوالے سے اپنے پٹھان کلاس فورکے بارے میں پوچھتی ہے تو دوسری اسے جواب میں کہتی ہے کہ پٹھان تو ایک نہیں آٹھ ہے کونسے پٹھان کا آپ پوچھ رہی ہیں تو یہاں پر اگر نام سے پکارا جاتا تو بہتر ہوتا پٹھان کا لفظ کلاس فور اور وہ بھی سات آٹھ کی تعداد میں ظاہر کرنا سراسر غلط ہے۔
یہ پٹھانوں کی غلط عکاسی بھی ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ سب کلاس فور ہی ہو پٹھان ہو آفس میں باقی پوسٹ پر بھی پٹھان ہو سکتے تھے جن سے وہ میڈم غگ یا ژاغ کے بارے میں معلومات حاصل کرتی اور دوسری بات اس ڈرامے میں غگ یا ژاغ کو بنیاد بنا کر پٹھانوں کو جس طرح پیش کیا گیا ہے پہلی قسط دیکھ کر انتہائی افسوس ہو رہا ہے۔
ہر معاشرے میں اچھی اور بری رسومات ہوتی ہے جن کو اجاگر کرنا ضروری ہے لیکن ان رسومات کی بنیاد پر پورے پشتون معاشرے کی اس طریقے سے عکاسی کرنا بہت غلط ہے۔اس ڈرامے میں ایک لڑکے کو جوکہ لڑکی پر غگ یا ژاغ کرتا ہے پشتون تحفظ موومنٹ کے بانی منظور پشتین کی ٹوپی پہنا کر پیش کیا گیا جوکہ پٹھانوں کی اور میرے خیال میں ایک محروم اور مایوس طبقے کی مایوسی اور محرومی میں مزید اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔
اس ڈرامے میں ایک عورت کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے بندوق اٹھاکر جس طرح دکھایا گیا ہے اور وہ جس طرح اپنی بیٹی سے بات کرتی ہے یہ بھی پشتون خواتین کی غلط عکاسی کرتی ہیں۔ اگر واقعی میں پشتونوں کی عکاسی کرنی ہے تو گزشتہ 20 سالوں میں جس طرح پرائی جنگ میں پشتونوں کے ساتھ کئے گئے مظالم کو دکھایا جائے ۔
پشتونوں ماوں اور بیٹیوں کے لاپتہ افراد اور انکی مشکلات کو دکھایا جائے۔ لینڈ مائینز میں اڑنے والے بچوں اور عورتوں کو دکھایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ بے گھر افراد اور خیموں میں زندگی گزارنے والے قبائلی عوام اور ان علاقوں میں سہولیات کا فقدان اور ان علاقوں کے لوگوں کی مشکلات اور محرومی کو کیوں نہیں دکھایا جاتا؟
ان علاقوں میں سکولوں اور ہسپتالوں میں سٹاف کے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اور بچوں کی اموات کو کیوں نہیں دکھایا جاتا۔ پڑھائی کا شوق رکھنے والی بچیوں اور سکولوں کے نہ ہونے اور نان فنکشنل سکولوں اور حکومت کی نااہلی کو کیوں نہیں دکھایا جاتا لیکن ایسا ہرگز نہیں دکھایا جائیگا پشتون معاشرے کی حقیقی معنوں میں عکاسی اگر دکھائی جائے تو شاید دنیا کو پشتونوں کی مشکلات کا اندازہ ہو جائیگا۔
مجھے افسوس اس بات کا ہو رہا ہے کہ اب بھی پٹھانوں کو کلاس فور اور بے وقوف دکھایا جاتا ہے اور جس طرح ڈائیلاگ استعمال ہوتا ہے اس کو سن کر یقینا لوگوں کے ذہنوں میں قبائلی عوام سے ڈر اور خوف کا ہونا ضروری ہے آخر کب تک پاکستان میں رہ کر ہم سے دوسرے لوگ خوف کھاتے رہیں گے اور قبائلی عوام کو اس طرح دکھایا جائیگا؟
پٹھانوں کی غلط عکاسی نے پہلے بھی بہت سے اثرات مرتب کئے ہیں اب مزید ہم ان اثرات کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔ ہمیں پٹھانوں کو ہر جگہ ہر پروگرام میں اپنی غلط پروفائیلنگ کے دفاع کے بارے میں منت وسماجت کرنی پڑتی ہے کہ ہم ایسے نہیں ہیں جس طرح ہماری پروفائیلنگ ہو رہی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس کے دوران بھی میرا یہی سوال تھا کہ میڈیا پر ہماری غلط پروفائیلنگ کو روکا جائے۔ اسی طرح سیکورٹی کے حوالے سے اگر بات ہوتی ہے فلم اور باقی ایسے پروگرامات جس میں پٹھانوں کو دکھایا جاتا ہے تو ان کو صرف ایک چوکیدار ، ڈرائیور، دہشتگرد دکھایا جاتا ہے اور جو زبان دہشتگردی کے لئے استعمال کی جاتی ہے وہ بھی پشتو زبان ہی دکھائی جاتی ہے آخر ایسا کیوں ہے؟
دہشتگرد دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں مگر ان کی زبان صرف پشتو کیوں دکھائی جاتی ہے؟ اسلام آباد میں ہونے والے کانفرنس میں معروف صحافی طلعت حسین سے اس پروفائیلنگ کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے یوں جواب دیا کہ جی بالکل ایسا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اب پٹھان بریگیڈیئر، پٹھان پی ایس ایل کے اونر اور پٹھان باقی مختلف شعبوں میں اعلی عہدوں پر نظر آتے ہیں۔
اب ان کو صرف کلاس فور دکھانا ناانصافی ہے اور دہشتگردی کے حوالے سے جب بات کی گئی تو انہوں نے یوں جواب دیا کہ دہشتگرد کسی بھی زبان سے تعلق رکھ سکتا ہے اور پشتونوں کو یا پشتو زبان کو دہشت گرد دکھانا بھی بہت غلط ہورہا ہے۔ طلعت حسین نے دہشتگردی کو قبائلی علاقوں سے جوڑنے کے حوالے سے کہا کہ ایسا میڈیا کوریج کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو دہشتگردی کی وجہ سے ان قبائلی اضلاع میں لوگوں کو کافی نقصانات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کو مین سڑیم میڈیا پر نہیں دکھایا جاتا۔
نہ صرف ہمارے ملک میں پٹھانوں کے ساتھ ایسا ہورہا ہے بلکہ باہر کے ممالک میں بھی انکو عجیب طرز سے پیش کیا جارہا ہے، گزشتہ دن یو اے ای میں ہونے والے ایک پروگرام میں بھی ہمارے ایک صحافی بھائی نے پٹھانوں کو مذاق کا نشانہ بنانے پر ایکشن لیا تھا اور فنکاروں کو معافی مانگنے پر مجبور کیا تھا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پٹھانوں کے ساتھ ایسا سلوک اب بند ہونا چایئے۔
دہشتگردی میں عرب، ازبک، تاجک، سرائیکی، ہندکو، اردو، بلوچی، پشتو ہر زبان کے لوگ شامل تھے تو صرف پشتو زبان اور پشتونوں کو ہی دہشتگرد دکھانا کہاں کا انصاف ہے؟ غگ یا ژاغ رسم جوکہ بہت پہلے قائم تھی اب تقریبا ختم ہو چکی ہے۔
میرے خیال میں جو رسومات ختم ہو چکی ہیں اس پر بات کرنے کی بجائے جو مشکلات قبائلی عوام کو درپیش ہے اگر اس پر ڈرامہ بنا کر دکھایا جاتا تو شاید اس سے بنیادی سہولیات سے محروم قبائلی عوام کی محرومی کا کچھ ازالہ ہوجاتا۔پختونوں کی چند ایک فرسودہ رسم ورواج کو بنیاد بنا کر پورے پختونوں کو اس طرح سے دکھانا میرے خیال میں پختون قوم کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔( بشکریہ ٹی این این)
Comments are closed.